ادب کی مختصر ترین تعریف یہ ہے کہ اپنے جذبات و احساسات و مشاہدات کو خاص سلیقے کے ساتھ تحریری شکل عطا کر دینے کا نام ادب ہے۔ یہ خاص سلیقہ اپنے موضوع یا خیال کے لیے صنف کے انتخاب کا بھی ہو سکتا ہے اور علم بیان و بدیع کے حسنِ استعمال کا بھی۔ الحمدللہ! ہمارا اُردو ادب بے شمار فن پاروں اور بے پناہ فنکاروں سے بھرا پڑا ہے۔ اس کالم میں انھی فنکاروں سے متعلقہ لطافت اور شگفتگی کے انداز میں کی گئی،بعض انوکھی، نرالی باتیں شامل کی جا رہی ہیں، جو یقینا قارئینِ کے لیے دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ ٭ شعر و ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والی معروف ترقی پسند افسانہ نگار ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور سے بہ مشکل ایک سال چھوٹی تھیں۔ ایک بار جب ان سے نقوش کے شخصیات نمبر کے لیے اپنی بہن کی شخصیت پر کچھ لکھنے کے لیے کہا گیا تو ان کی مختصر رائے یوں تھی: ’’ چھوٹی سی، سادہ سی خدیجہ کیلئے ’شخصیت‘ جیسا ڈاڑھی مونچھوں والا بے ڈول لفظ استعمال کرتے ہوئے مجھے ہنسی آئی … میرا تو ابھی یہ احساس مدھم نہیں ہوا کہ مَیں نے جلدی سے پیدا ہو کر، اُن کے حصے کا دودھ چھین لیا مگر وہ اس حق تلفی پر بھی مجھ سے ناراض نہیں ہوئی!‘‘ ٭ صرف ساڑھے بتیس سال کی عمر میں راہیِ ملکِ عدم ہو جانے والے ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری (۱۸۸۵ئ۔ ۱۹۱۸ئ) کو زیادہ تر لوگ ان کی کتاب ’’محاسنِ کلامِ غالب‘‘ کے حوالے سے جانتے ہیں۔ غالب شناسی کے ضمن میں اُن کا یہ جملہ تو تقریباً ہر غالب فہم کی نوکِ زبان پر ہے کہ: ’’ہندوستان کی مقدس کتابیں دو ہیں: ۱۔ ہندوؤں کی مقدس وید اور دیوانِ غالب‘‘ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ریاست بھوپال میں مقیم اُردو ادب کے اس منفرد ناقد نے جرمن زبان سیکھ کر ’’اسلام کا قانونی نظام‘‘ پرپی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۱۸ء میں بھوپال میں پھیلنے والی انفلوئنزا کی وبا میں نہ صرف وہ بلکہ اُن کا پورا گھرانہ تھوڑے ہی عرصے میں چل بہ چل ہو گیا۔ ٭ سرسید احمد خاں، مولانا الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نعمانی اور مولانا محمد حسین آزاد کو ’اُردو کے ارکانِ خمسہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُن کو یہ لقب رومانوی تحریک کے معروف ادیب مہدی افادی نے عطا کیا تھا، جن کی رومانوی نثر پر مشتمل ایک مزے دارکتاب ’’افاداتِ مہدی‘‘ بہت معروف ہے۔ ٭ علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ ۴۳۱ھ میں لاہور تشریف لائے اور دریائے راوی کے مشرقی کنارے قیام کیا۔ نو محرم ۴۶۵ھ کو اُن کا انتقال ہوا، اور اپنے حجرے ہی میں دفن ہوئے۔ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ’’کشف المحجوب‘‘ ہے، جسے شاید ان کے ننانوے فیصد عقیدت مندوں نے کھول کر بھی نہ دیکھا ہو۔ اگر اس کتاب کے استفادے کو عام کیا جاتا تو شاید ان سے عقیدت و آگہی کا عالم کچھ اور ہوتا۔ ان کے افکار و اقوال سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد کے عالموں اور صوفیا میں سب سے بڑے موحد تھے۔ ٭ بیگم سرفراز اقبال ، ہمارے ادب میں ایک زندہ حقیقت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ وہ بہت سے ادیبوں کے دلوں اور تحریروں میں دھڑکن کے مانند دھڑکتی تھیں۔ ابنِ انشا، منیر نیازی، ممتاز مفتی اور اس زمانے کے بہت سے قلم کار، اُن کے حسن اور حسنِ سلوک کے معترف رہے ہیں۔ وہ ادبی محفلوں کی نہایت عمدہ میزبان ہوا کرتی تھیں۔ بالخصوص فیض احمد فیض کی وہ نہایت عقیدت مند اور قریبی دوست تھیں۔ 1988ء میں منظرِ عام پہ آنے والا خطوط کا مجموعہ ’’فیض بنام بیگم سرفراز اقبال‘‘ کئی حوالوں سے زیرِ بحث رہا۔ انھی بیگم سرفراز اقبال کی منیر نیازی سے بھی ملاقاتیں اور خط کتابت تھی، جس کاحال ڈاکٹر سمیرا اعجاز کے مرتبہ ’’کلیاتِ نثرِ منیر نیازی‘‘ میں شامل عمدہ استعارے کے حامل، اس مختصر سے شاعرانہ خط سے ہو جاتا ہے: ’’سرفراز! تمھارا خط شامِ بہار کی ہوا کی طرح تھا۔گئی رات تک اس کی خوشبو پھیلی رہی۔ اس روز مَیں بھی بہت اداس تھا۔ تمھاری اداسی، رفیق اداسی کی طرح محسوس ہوئی: سپنے نے سپنے کو دیکھا اور دونوں حیران ہوئے۔‘‘کوی جسیم الدین سندھی زبان کے خوبصورت شاعر تھے، ان کی ایک نظم میں یہ اچھوتی تشبیہ بھی ملاحظہ ہو: ’’مَیں آسمان کے چاند کی طرف کیا دیکھوں، جبکہ میرے سامنے محبوب کے پاؤں کی انگلیوں کے ناخنوں کی صورت دس چاند موجود ہیں۔‘‘ حفیظ جالندھری کی وجہِ شہرت یقینا قومی ترانہ اور ’شاہنامۂ اسلام‘ ہی ہے۔ ان کی گیت نگاری کو بھی تھوڑا بہت ملکۂ ترنم نور جہاں اور ملکۂ پکھراج نے(ابھی تو مَیں جوان ہوں) کسی حد تک نمایاں کیا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حفیظ جالندھری نے افسانے بھی لکھے ہیں اور ان کے سات افسانوں پر مشتمل مجموعہ ’ ہفت پیکر‘ کے عنوان سے شایع ہو چکا ہے، نیز چیونٹیوں جیسی ننھی مخلوق کے ساتھ بھی ان کی خاص دلچسپی تھی۔ انھوں نے ایک مزے دار کتاب ’چیونٹی نامہ‘ کے عنوان سے بھی لکھی۔ وہ عام زندگی میں بھی اس مخلوق پر خاص توجہ دیتے تھے۔ سید ضمیر جعفری نے اپنی ڈائری میں ایک واقعہ یوں لکھا ہے: ’’ایک جگہ چیونٹیوں کا ہجوم تھا۔ حفیظ صاحب کہ ان کے محرمانِ راز میں سے ہیں، وہیں کھڑے ہو گئے، بولے: ’’پتہ ہے کیا ہو رہا ہے؟ ‘‘ عرض کیا: ’’خاک ہو رہا ہے، بے چاری خواہ مخواہ جینے کی مشقت میں مبتلا ہیں۔‘‘ کہنے لگے: ’’دو قبیلوں میں بڑے زور کا یُدھ پڑ رہا ہے، یہ مکوڑے جو نظر آتے ہیں، دونوں طرف کرائے کے سپاہی ہیں۔‘‘ سید ضمیر جعفری اور حفیظ جالندھری کا کسی نہ کسی حوالے سے چالیس سال تک ساتھ رہا۔ انھوں نے حفیظ کی شخصیت کا قریب سے مشاہدہ کیا اورقرابت کے بعض لمحات کو اپنے مخصوص شگفتہ اسلوب میں بیان کیا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں؛ ’’آپ کبھی ان کے ہمراہ سودا سلف خرید کر دیکھیے، ایک روپے کی چیز پر پانچ روپے کی فاعلاتن فاعلات کرتے ہیں۔ سبزی والے کے کھارے سے ٹماٹر اس طرح اس طرح چھانٹتے ہیں جیسے انتخابِ کلامِ داغ کر رہے ہوں۔ گوشت کی عمدگی اور تازگی کے مسئلے پر قصابوں سے اس شدومد کی بحث کرتے ہیںکہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہاب تک کسی قصاب کے ہاتھوں قتل نہیں ہو چکے۔‘‘ معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور گورنمنٹ کالج لاہور کے ایم اے انگریزی تھے،جو پطرس کے شاگردوں بلکہ مریدوں میں شمار ہوتے تھے۔ تقسیمَ ملک کے وقت مشرقی پنجاب چلے گئے۔ پوسٹنگ اور رہائش تقریباً تمام عمر موگا میں رہی لیکن لاہور کو ہمیشہ آہیں بھر بھر کے یاد کرتے رہے۔ اُردو مزاح اور خاص طور پہ تحریف نگاری (پیروڈی) میں یہ جدت پیدا کی کہ ایک ہی شاعر کے دو الگ الگ مصرعوں کو باہم ملا کے نیا شعر بنا دیا، جس سے مفہوم و معانی کی دنیا ہی بدل گئی۔ فی الحال چند نمونوں پر اکتفا کیجیے: نَے ہاتھ باگ پر ہے ، نہ پا ہے رکاب میں ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں …… جان تم پر نثار کرتا ہوں شرم تم کو مگر نہیں آتی