مغربی ممالک اور خاص کر امریکہ میں چین کے مشرقی ترکستان میں آباد مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر نہ صرف ذرائع ابلاغ تشویشناک خبروں اور تبصروں سے اٹے پڑے ہیں بلکہ پارلیمان میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔ حتیٰ کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی بیجنگ سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کو عید کا تہوار آزادی سے منانے کی اجازت دے۔ دنیا کی کئی ایک نامور مسلمان شخصیات اور تحریکیں بھی یوغر مسلمانوں کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوچکی ہیں۔ امریکہ میں مقیم ایک دوست نے بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران 2100 مساجد میں نماز اور خاص کر جمعہ کے اجتماعات میں یوغر مسلمانوں کے حوالے سے معلوماتی لڑیچر تقسیم کیاگیاہے۔تین سو سے زائد امریکی مساجد کے اماموں نے ایک مشترکہ یاداشت میں چینی مسلمانوں کے ساتھ روارکھے گئے سلوک پر شدید تشویش کا اظہارکیا۔کانگریس اور سینٹ دونوں میں یوغر مسلمانوں کے حوالے سے دو بل زیرغور ہیں ۔34 سینٹروں نے ایک بل کو سپانسر کیا ۔ کانگریس میں زیربحث بل کو 62 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔اگلے چار ہفتوں میں ان بلوں کے منظور ہونے کا امکان بتایاجاتاہے۔دوسری جانب امریکی مسلمان لیڈرانسانی حقوق کے دیگر علمبرداروں کے اشتراک سے کانگریس اور سینٹ کی حمایت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔چین پر الزام ہے کہ اس نے تیس لاکھ مسلمانوں کو حراستی کیمپوں (concentration ) میں رکھاہوا ہے۔ ان حراستی کیمپوں کو دنیا کی تاریخ کے نازی جرمنی کے بعدسب سے بڑی جیلیںقراردیاجارہاہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ ایک لاکھ چینی شہریوں باالفاظ دیگر کمیونسٹوں کو مسلمانوں کے گھروں میں بطور مہمان زبردستی ٹھہرایاگیا ہے تاکہ وہ ان کی ’’تربیت اور اصلاح‘‘ کے فرائض سرانجام دے سکیں۔اکثر مسلمان بچوں کو حکومت تحویل میں لے لیتی ہے تاکہ ان کی تعلیم اور تربیت مسلم اقدار اور عقائد کے برعکس کی جاسکے۔امریکی مساجد میں تقسیم کیے جانے والے لڑیچر کے سرسری جائزے سے پریشان کن معلومات سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پرکہاجاتاہے کہ چین کے مسلمانوں کو سلام یارمضان مبارک کہنے کی اجازت نہیں۔ روزہ نہیں رکھ سکتے حتیٰ کہ بچوں کا نام محمدرکھنے کی بھی ممانعت ہے۔ آج کی مہذب دنیا میں اس طرح کے اقدامات کا تصور بھی محال ہے۔چین کو ایسے اقدامات واپس لینے پر مجبور کرنے کے لیے دنیا بھر میں زبردست مہم چل رہی ہے۔غیرسرکاری تنظیمیں اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر عطیات بھی جمع کررہی ہیں۔ چین کی مصنوعات کے بائیکاٹ پر بھی غور کیاجارہاہے۔ 19جون کو واشنگٹن میں صدرڈونلڈ ٹرمپ کے دفتر کے سامنے یوغر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک بڑے مظاہرے کا اعلان کیا جاچکاہے۔یاد رہے کہ ڈیڑھ ماہ قبل اپریل میں بھی ایسا ہی ایک مظاہرہ ہوچکا ہے۔ امریکی مسلمانوں کی تنظیموں نے ایک لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں جو یوغر مسلمانوں کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کو باخبر رکھتی ہے اور بااثر سیاستدانوں اور حکام کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ امریکی کانگریس اور سینٹ میں چین کے خلاف قانون سازی ہوسکے گی لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ صلیب بیجنگ کے سر پر لٹکتی رہے گی۔ چین کی حکومت اور عوام کے لیے پاکستان میں زبردست محبت اور اخوت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اسے قابل اعتماد دوست تصور کیاجاتاہے۔چین نے بھی مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کاساتھ دے کر دوستی اور ہمسائیگی کاحق اداکیا ہے۔ چنانچہ ہمارا میڈیا بھی چین کے حوالے سے منفی خبروں کی اشاعت سے گریز کرتاہے اور کرنا بھی چاہیے لیکن چین کے حوالے سے عالمی سطح پر تیزی سے ابھرنے والی مہم اور اس میں بااثر مسلم شخصیات کی شمولیت سے زیادہ دیر تک صرف نظر کرنا مشکل نظرآتاہے۔ رفتہ رفتہ ایک ایسا بیانیہ تشکیل پاسکتاہے جس سے چھٹکارہ پانا چین کے لیے آسان نہ ہوگا۔ سرد جنگ کے اختتام پر اسی طرح دھیمے سروں اور لہجے میںپاکستان مخالف مہم شروع ہوئی تھی۔ بروقت اسے غیر موثر نہیں کیا جاسکا تو بتدریج وہ عالمی رائے عامہ کا غالب بیانیہ بن گئی۔ چین اپنے داخلی معاملات میںمداخلت کے حوالے سے حساس بہت ہے۔ وہ عالمی یا علاقائی فورمز پر ایسے ایشوز کو زیربحث لانے کی اجازت نہیں دیتا۔چین کے اندر آزاد ذرائع ابلاغ ، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا تصور پایاجاتااور نہ اس طرح کے موضوعات پر گفتگو کو پسند کیا جاتاہے۔ چین کے خلاف عالمی سطح پرجاری مہم سے پاکستانی عوام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ان کی بہت بڑی تعداد مغرب میں آباد ہے اور ملک کے اندر بھی خاص کر نوجوانوں کی بڑی تعداد فرنگی ذرائع ابلاغ سے اطلاعات کشید کرنے کا میلان رکھتے ہیں۔آئے روز سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد چینی مسلمانوں کے حالات دیکھتی ہے اضطراب اور بے بسی دوچند ہوجاتی ہے ۔ چین کی کمزوری یہ ہے کہ وہ یوغر مسلمانوں کے مسائل، سیاسی اور مذہبی مطالبات کا حل دھونس، دھاندلی اور لالچ کے روایتی حربے استعمال کرکے نکالنے کی کوشش کررہاہے۔ اکیس ویں صدی میں شہریوں کو رام کرنے کے یہ حربے کب کے بے کار ہوچکے ۔ سیاسی مسائل اور تنازعات کا حل ریاستی طاقت نہیں مذاکرات اور شراکت دار ی میں مضمرہے۔ چین کو بھی یوغر مسلمانوں کے عقائداور سیاسی نظریات کی تطہیرکے بجائے ان کے جائز مطالبات کا ہمدردی سے جائزہ لینا چاہیے۔مسلمانوں کی حقیقی لیڈرشپ کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ مغرب اور خاص کر امریکہ چین سے گزشتہ کئی عشروں سے خار کھائے بیٹھاہے۔ چین نے اسے نادر موقع فراہم کیاہے۔وہ اسے مسلم دنیا سے بھی کاٹ پھینکے گا اور ترکستان کے ایک کروڑ مسلمانوں سے ایسی دشمنی پیدا کرادے گا کہ عشروں تک یہ تنازعہ الجھا رہے گا۔ چین کھلے دل کامظاہرہ کرے اور یوغر مسلمانوں کی آزادیاں بحال کردے تو مغرب کا دباؤ ختم ہو جائے گا ۔حراستی کیمپ آباد رہے اور ریاستی طاقت کا استعمال بھی جاری رہاتو لاؤا پکتارہے گا۔ کسی بھی وقت آتش فشاں کی ماند پھٹ پڑے گا۔مسلمانوں کا بھلا ہوگا نہ چین کا۔