چھیڑ خوباں سے چلی جائے، اسد لیکن کب تک۔ آپ ایک بار سوہنے کو سوہنیو کہہ کر مخاطب کریں گے تو وہ خوش ہو گا اور خوش ہو کر ڈیسک بھی بجائے گیا لیکن جب آپ ہر روز ہی اسے ایک ہی راگ سناتے چلے جائیں کہ تیرے حسن کی کیا تعریف کروں تو وہ کب تک برداشت کرے گا، ایک دن اس کے پیمانہ برداشت سے عدم برداشت کی جھلک اٹھے گی۔ پھر ’’خوباں‘‘ کا ناریل چٹخے جائے گا اور وہ دھول دھپے کا آپشن استعمال کرے گا۔ یہی کچھ ہمارے شاہِ خوباں کے ساتھ ہوا ہے جسے ’’دست فلک‘‘ نے سال بھر پہلے ہی بڑے نازوں سے ’’سلیکٹ‘‘ کیا تھا۔ چنانچہ خوباں کی شکایت بمع فرمائش پر ڈپٹی سپیکر نے پابندی لگا دی ہے کہ خبردار، آج کے بعد کسی نے ہمارے چنیدہ شاہ خوباں کو چنیدہ کہا تو… ٭٭٭٭٭ اور اگر پھر بھی اپوزیشن باز نہ آئی تو ڈپٹی سپیکر کیا کریں گے؟ قواعد و ضوابط سے کچھ واضح جواب نہیں ملتا۔ لیکن اگر قوانین واضح بھی ہیں تو بھی اپوزیشن کو احتیاط سے کام لینا ہی ہو گا۔ اس لیے کہ قواعد خطرناک نہ ہوں تو بھی نیب موجود ہے اور اب تو ایف بی آر بھی موجود ہے جس نے چار ہزار روپے مالیت کے کھٹارا موبائل فون سیٹ کے مالک ایک مزدور کو 52ہزار روپے کا ٹیکس نامہ بھیج دیا ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین شبرزیدی نے جس طرح کی ٹیکس پالیسی نافذ کرنا شروع کر دی ہے، اس سے صاف لگتا ہے کہ آپ بھی کسی طور شاہ خوباں سے کم نہیں۔ ٭٭٭٭٭ اپوزیشن والے سنا ہے پھر بھی باز نہیں آئیں گے اور اس ’’کمی‘‘ کی پیروی کریں گے جس نے ساتھ کے گائوں میں ہونے والی دعوت کے دوران انپے چودھری کا تعارف کرایا تھا۔ عین روانگی کے وقت چودھری کو پتہ چلا کہ لنگی لاچے تو استری کر دیئے گئے ہیں لیکن کرتے سبھی بنا استری کے ہیں۔ نوکروں سے غلطی ہو گئی۔ اوپر سے بجلی بھی چلی گئی تھی۔ چودھری حیران اور پریشان تھا اور روھانسا ہو چلا تھا۔ اتنے میں کمی بھی آ گیا۔ چودھری نے دیکھا کہ اس نے نہایت صاف ستھرا، استری کیا ہوا کرتا پہن رکھا ہے۔ چودھری کی چندیا کے اندر جگنو چمکا۔ کمی سے کہا، تمہارا کیا ہے، تم یہ بے استری کا کرتا پہن لو، اپنا اتار کے مجھے دو۔ حکم چودھر، مرگ مفاجات، کمی کی مجال ہی کیا تھی کہ آئیں بائیں کرتا۔ دونوں ساتھ کے گائوں پہنچے، شامیانے میں پہلے ہی ہجوم سے کمی نے چودھری کا تعارف کرایا۔ یہ ہیں کھڑک پور کے رئیس، بڑی زمینوں کے مالک، بہت مربعے، بڑی حویلیاں گھوڑے، نوکر چاکر اور کرتا جو انہوں نے پہن رکھا ہے، وہ البتہ میرا ہے۔ مہمان ہنس پڑے۔ چودھری کھسیانا ہو گیا۔ پھر علیحدگی میں کہا، کم بخت تو نے یہ کیوں کہا کہ کرتا تمہارا ہے۔ کمی نے غلطی کی معافی مانگی اور بولا، پھر سے یہ نہیں کہوں گا۔ مہمانوں کی دوسری ٹولی سے کمی نے یوں تعارف کرایا۔ یہ ہیں کھڑک پور کے چودھری، بڑے رئیس،بہت زمینیں مربعے، گھوڑے حویلیاں، نوکر چاکر اور یہ کرتا جو انہوں نے پہن رکھا ہے، یہ بھی انہی کا ہے۔ چودھری پھر ناراض ہوا اور بولا خبردار آئندہ تم نے کرتے کا ذکر ہی نہیں کرنا۔ تیسری ٹولی سے تعارف یوں ہوا۔ یہ ہیں کھڑک پور کے رئیس، ان کی بڑی زمینیں، جائیدادیں…الخ اور یہ کرتا جو انہوں نے پہن رکھا ہے، کس کا ہے یہ میں نہیں بتائوں گا۔ یہ بتانے پر پابندی ہے۔ وہ تو خیر ہوئی چودھری کے پاس نیب تھانہ ایف بی آر۔ اس لیے کمی کی جان گائوں پہنچنے پر تھوڑی بہت چھترول کے بعد چھوٹ گئی ورنہ 90روز کا ریمانڈ بھگت رہا ہوتا۔ ٭٭٭٭٭ اپوزیشن ’’کمی‘‘ کے فارمولے پر عمل کر سکتی ہے، ذرا سی ترمیم کے ساتھ۔ یوں کہ ان سے ملئے، یہ ہیں شاہ خوباں، بہت لاڈلے، بہت راج دلارے۔ تین سو کنال کا بنگلہ ان کا ہے، فلاں فلیٹس بھی، بہت بڑی پارٹی ہے، دھرنا کارپوریشن بھی انہی کی، راج بھی ان کا، پاٹ بھی ان کا، ادارے بھی ان کے، سب کچھ ان کا لیکن یہ عوام کے ووٹوں سے بنا کرتا جو انہوں نے پہن رکھا ہے، اس کے بارے میں کچھ مت پوچھئے کیونکہ بتانے پر پابندی ہے۔ ٭٭٭٭٭ سلیکٹڈ کا مخالف الیکٹڈ ہے اور ستم دیکھئے، اردو میں دونوں کا ترجمہ ایک ہی ہے۔ یعنی ’’منتخب‘‘ کوئی تفریق نہیں ہے۔ ایک صاحب نے البتہ موزوں مترادف ڈھونڈ نکالا ہے اور اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا ہے۔ لکھا ہے الیکٹڈ کے معنے منتخب، سلیکٹڈ کے معنے چنتخب‘‘۔ دیکھئے مقتدرہ اردو والے اس مترادف کو سلیکٹ کرتے ہیں یا نہیں۔ سرکاری ادارہ ہے، شاید نہ کرے، ایک بڑی ڈکشنری آکسفورڈ والوں کی بھی ہے، کیا پتہ، ان کی پسلی پھڑک اٹھے؟ ٭٭٭٭٭ سراج الحق پارلیمنٹ کے رکن نہیں۔ پھر بھی انہوں نے عائد شدہ پابندی کا خیال رکھا ہے اور حکومت کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کہنے کے بجائے کچھ اور لفظوں سے یاد کیا ہے۔ فرمایا ہے، یہ لٹیروں اور چوروں کا مسافرخانہ ہے۔ مقدس مسافر خانہ، صادق و امین مسافر۔ مسافر خانہ یعنی سرائے اور سرائے کب عبرت سرائے بن جائے، کون جانتا ہے ع سو انس نقارہ کوچ کا باجت ہے دن رین