معزز قارئین! استاد شاعر امیر میناؔئی نے اپنے محبوب کو ’’گُل ‘‘ قرار دیتے ہُوئے اُس کی نازک ؔکلائی کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …

اللہ رے ! اُس گُل کی کلائی کی نزاکت ؟

بل کھا گئی ، جب بوجھ پڑا ، رنگ حِنا کا؟

لیکن، تندرست و توانا، راجپوت سیاستدان ، مسلم لیگ (ن) کے سابق وفاقی وزیر داخلہ ، چودھری نثار علی خان کا معاملہ کچھ اور ہے ۔ بقول اُن کے ، اُنہوں نے 34 سال تک جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی پیداوار ’’ بھاری بھر کم ‘‘ سیاستدان میاں نواز شریف کا بوجھ اُٹھائے رکھا لیکن، آخر کارتین دِن پہلے (18 جون کو) راولپنڈی کے اپنے حلقہ انتخاب میں وہ بوجھ اُتار نے کا اعلان کردِیا۔ اُستاد رشکؔ نے خُود کو اپنے ’’ہمسروں ‘‘ سے سُبک ؔ (چست و چالاک) ظاہر کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … 

سُبک تھا ، ہَمسروں میں ،بوجھ اُترا ،میری گردن سے !

میاں نواز شریف کہانی کے ’’ پیر تسمہ پا ‘‘ہوتے تو، وہ خود چودھری صاحب کی گردن سے اُترنے کا نام نہ لیتے لیکن، ’’ناخوشگوار دوستانہ تعلقات ‘‘ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ معزز قارئین! 8 ستمبر 2014ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں مَیں نے اپنے کالم میں وزیراعظم نواز شریف کو مُغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ ۔ بہادر شاہ ظفر کی کمزور پوزیشن کے پیش نظر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو ۔’’ وزیراعظم کا ’’جنرل بخت خان!‘‘ ۔قرار دیتے ہُوئے لِکھا تھا کہ ’’ 11 مئی 1857ء کو میرٹھ سے جنگ آزادی کا آغاز ہُوا ۔ (اودھ کے راجپوت) جنرل بخت خان نے 31 مئی کو اپنی 10 ہزار فوج کے ساتھ انگریزی فوج کو دہلی میں شکست دے دِی تھی لیکن، مغل شہزادوں ،درباریوں کی سازشوں اور بہادر شاہ ظفر کی کمزور طبیعت کی وجہ سے جنرل بخت خان 8 ستمبر 1857ء کو بادشاہ سے ناراض ہو کر کہیں چلا گیا تھا اور روپوش ہوگیا تھا لیکن، مجھے یقین ہے کہ ، نواز شریف کے جنرل بخت خان ( چودھری نثار علی خان)آخر دم تک وزیراعظم نواز شریف کا ساتھ دیں گے! ‘‘۔

اقتدار میں آ کر میاں نواز شریف کا مزاج اپنے "Godfather" جنرل ضیاء الحق کے مزاج کے عین مطابق رہا۔ وہ اپنی "Kitchen Cabinet" کے بعض خوشامدی وزراء کی ’’ کانا پھوسی‘‘ پر زیادہ توجہ دیتے تھے ۔ چودھری نثار علی خان کی اُن سے نہیں بنتی تھی۔ 13 جون 2016ء کو الیکٹرانک میڈیا پر پوری قوم نے ’’ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کی ہنستی مسکراتی تصویر دیکھی تھی۔ تصویر میں موصوف ؔ انتہائی عقیدت سے قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سیّد خورشید احمد شاہ کے گھٹنوں کو چُھو رہے تھے ۔ معزز قارئین! مَیں سوچ رہا تھا کہ ’’ چودھری نثار علی خان تو، اپنے لیڈر وزیراعظم نواز شریف کے گھٹنوں کو بھی نہیں چُھوتے ، بھلا وہ کسی غیر کے گھٹنوں کو کیوں چُھوئیں گے؟‘‘۔ 

مئی 2016ء میں وزیراعظم نواز شریف عارضہ قلب کے علاج کے لئے لندن گئے تو، پانامہ لیکس کیس میں اُن کی نااہلی کی صُورت میں مسلم لیگ (ن) میں اُن کے جانشین ( وزیراعظم ) کے سلسلے میں کُھسر پُھسر ہو رہی تھی۔ ایک نجی ٹی وی نیوز چینل پر مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر لیڈر سیّد ظفر علی شاہ کے انٹرویو کا بڑا چرچا ہُوا، جِس میں ، شاہ صاحب نے کہا تھا کہ ’’ چودھری نثار علی خان ہی وزیراعظم نواز شریف کے جانشین ہوں گے کیونکہ فی الحال قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی اکثریت بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز کو وزیراعظم کو منتخب کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں !‘‘۔ 

اُن دِنوں مسلم لیگ (ن) اور بعض دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی راجپوت برادری کا ایک مضبوط گروپ چودھری نثار علی خان کا حمایتی بن گیا تھا۔ 17 دسمبر 2016ء کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے چودھری نثار علی خان نے کہا تھا کہ ’’ مَیں نے جنابِ وزیراعظم (میاں نواز شریف) سے ملاقات کے بعد اُنہیں وزارتِ داخلہ سے مستعفی ہونے کی پیشکش کی لیکن، اُنہوں نے کہا کہ، میرے لئے آپ کا استعفیٰ قابل قبول نہیں ہے! ‘‘۔ پھر پانامہ لیکس کیس منظر عام پر آگیا۔ وزیراعظم نواز شریف کو ، اپنا تختہ اُلٹتا نظر آیا لیکن،اُن کی "Kitchen Cabinet" کے بعض ارکان نے اُنہیں اداروں ( پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ ) سے تصادم کا مشورہ دِیا۔ 

پھر 14 جولائی 2017ء کا سورج طلوع ہُوا تو، وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں چودھری نثار علی خان نے اپنی وضع داری اور دوستانہ رکھ رکھائو کے سارے تقاضوں کو بھلا کر اپنے خطاب میں کہا کہ ’’   جنابِ وزیراعظم ! اب آپ کو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ؟ ‘‘۔ اِس پر ’’جوابِ آں غزل ‘‘ کے طور پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ’’ چودھری نثار علی خان ! اگر آپ کو کچھ تحفظات تھے تو، کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ آپ مجھ سے علیحدگی میں بات کرتے؟‘ ‘ ۔ دوسرے دِن (15 جولائی) کو قومی اخبارات میں خبر شائع ہُوئی کہ ’’ چودھری نثار علی خان کابینہ کے اجلاس میں دیر سے آئے تھے ۔ اُنہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کر کے 45 منٹ تک جذباتی تقریر کی اور فوراً اجلاس سے چلے گئے! ‘‘۔

چودھری نثار علی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ جنابِ وزیراعظم! مَیں سالہا سال سے آپ کے سامنے سچی بات کرتا ہُوں ۔ خوشامد نہیں کرتا۔ آپ کی خوشامد کرنے والوں کی وجہ ہی سے مَیں نے آج اِس طرح کی باتیں کی ہیں ۔ آپ کا فرض تھا کہ آپ خوشامدیوں کو روکتے ۔ آپ کو مشاورت کا عمل محدود نہیں کرنا چاہیے۔ میرا آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اداروںسے ہر گز تصادم نہ کریں۔ خوشامدی لوگوں نے ہی آپ کو اِس مقام پر پہنچا دِیا ہے !‘‘ 15 جولائی کے قومی اخبارات میں کابینہ کے اجلاس میں جناب مشاہد اللہ خان کی طرف سے اپنے قائد کو ( اداروں کے خلاف) مشتعل کرنے والے مندرجہ ذیل اشعار شائع ہُوئے …

دُنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں!

آزاد منُش انسانوں کے !

یا تختہ سُولی، پھانسی کا!

یا تخت مقام آزادی کا!

…O…

دستِ ایثار میں، کب آبلہ پا ،رُکتا ہے؟

کون سے بند سے، قافلۂ وفا، رُکتا ہے؟

…O…

کب تک ، اِس شاخ وفا کی ،رگیں ٹوٹیں گی!

کونپلیں ، آج نہ پُھوٹِیں، تو کل پُھوٹیں گی!

14 جولائی کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اپنے ’’قائد ‘‘ وزیراعظم نواز شریف کو کھری کھری سُنانے پر 17 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ نثار علیؔ ۔ نثار شریفؔ ۔ نہیں بنیں گے!‘‘۔ یہ گویا میری ایک طرح کی پیشگوئی تھی اور جب 28 جولائی کو جب سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سرپم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت صادق ؔاور امین ؔ نہ ہونے پر تاحیات نااہل قرار دِیا تو اُنہوں نے نہ صِرف اعلیٰ عدلیہ بلکہ پاک فوج کے خلاف بھی (زبان و بیان سے ) مسلح جدوجہد کا اعلان کردِیا ۔

10 اگست 2017ء کو الیکٹرانک میڈیا پر چودھری نثار علی خان نے ارشادات کی گونج سُنائی دِی۔ اُنہوں نے کہا کہ’’ سابق وزیراعظم کو انتہا تک نہیں جانا چاہیے۔ ایسا روّیہ نہ اپنائیں کہ ادارے مخالف ہو جائیں!‘‘ لیکن ، اب تو بہت دیرہوگئی تھی۔ معزز قارئین! 28 جولائی 2017ء کے بعد چودھری نثار علی خان کہاں تک میاں نواز شریف کا بوجھ اپنے کندھوں پر سنبھالے رکھتے؟۔ 25 جولائی 2018ء کو تو، پورے ملک میں ’’انتخابی رن‘‘ پڑے گا۔ ’’پانی پتّ کی چوتھی لڑائی‘‘ تو، پنجاب ؔہی میں ہوگی۔ چودھری نثار علی خان نے اپنے خطاب میں ، میاں نواز شریف اور مریم نواز کے کردار ؔکو عوام کے سامنے لانے کا اعلان کِیا ہے ۔ عوام کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟۔ فی الحال تو مَیں یہی کہوں گا کہ ’’ 34 سال تک میاں نوازشریف کا بوجھ اُٹھانے والے چودھری نثار علی خان ۔ ’’ میاں نثار شریف نہیں بن سکے!‘‘۔