چند روز قبل ٹور ازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے چولستان جیپ ریلی کی مرکزی افتتاحی تقریب لاہور میں ہو چکی ہے ، دوسری تقریب گزشتہ روز ڈی ایچ اے بہاولپور میں ہوئی ، تقریب کے مہمانِ خصوصی کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری نے اپنی تقریر میں جیپ ریلی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے وسیب میں سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا اور یہ ریلی وسیب کی پرشکوہ ثقافتی ورثے کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا سبب بنے گی ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شائقین کی سہولت کیلئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی 30 بسیں چولستان جیپ ریلی کے مقام پر عوام کو لے جانے اور لے آنے کا فریضہ سر انجام دیں گی ۔ ریلی کے انتظامات کے سلسلے میں چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 100 خیمے کے کیمپ لگانے کا بھی انتظام کیا ہے۔ ریلی میں ڈویژنل انتظامیہ کے ساتھ رینجرز اور ملٹری بھی بھرپور رہنمائی دے رہی ہے۔ بلاشبہ صحرائے چولستان عظیم تہذیبی و ثقافتی ورثے کی سرزمین ہے اور اس ریلی سے تاریخی ورثے کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کا موقع فراہم ہوگا۔ چولستان ریلی کے سلسلے میں ایک موقف سرکاری ہے اور دوسرا عوامی ۔ میں چاہوں گا کہ دونوں نقطہ نظر سامنے آئیں ۔ بلاشبہ کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری صاحب وسیب سے محبت کرتے ہیں ، وسیب کی زبان و ثقافت سے بھی انہوں نے بار ہا محبت کا اظہار کیا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ ہدایت کی ہے کہ چولستان ریلی کے حوالے سے ہونے والے ثقافتی ایونٹ وسیب کی زبان اور وسیب کی ثقافت کے حوالے سے ہونے چاہئیں ۔ ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ چولستان ڈیزرٹ ریلی سے جہاں چولستانی کلچر کی دنیا بھر میں شناخت ہوتی ہے وہاں ملک بھر کے صاحب استطاعت اور اثر رسوخ رکھنے والی شخصیات میں باہمی اتحاد و یکجہتی کے جذبوں کو بھی فروغ ملتا ہے۔ چولستان جیپ ریلی سے چاروں صوبوں سے صاحب ثروت اور اہم سرکردہ شخصیات شریک ہوتی ہیں جو اس موقع پر باہمی گفت و شنید اور باہمی میل ملاپ ہوتا ہے ، اس سے نفرتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس طرح جیپ ریلی سے بہاولپور بالخصوص چولستان کی معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اس بار چولستان جیپ ریلی میں تقریباً تین لاکھ افراد سے زائد کی ملک بھر سے آتے ہیں ۔ یوں اس موقع پر ڈیراور سمیت بہاولپور ڈویژن کے تینوں اضلاع کے اہم چولستانی مقامات میں کئی شہر آباد ہو رہے ہیں ۔ علاقے کے لوگوں کو کھانے پینے کے سٹالوں سے لے کر علاقہ کے مویشی ، دودھ اور دیگر خوردونوش فروخت کرنے کے مواقع ملیں گے۔ اس طرح یہاں کے باشندوں بالخصوص چولستانیوں کو معاشی فائدہ ہوگا۔ دوسرا عوامی نقطہ نظر یہ ہے کہ چولستان جیپ ریلی سے مقامی لوگوں کو قطعی طورپر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کی بیورو کریسی جو کہ لاہور میں بیٹھتی ہے تو وہاں بیٹھ کر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں جو کہ مقامی ماحول کے بالکل بر عکس ہوتے ہیں ۔ مقامی سپانسرز سے ہونے والے کثیر سرمایہ اور آمدنی کا کوئی حساب کتاب نہیں ۔ کیا ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ ایونٹ چولستان کا ہو اور افتتاحی تقریب لاہور میں منعقد کی جائے اور اس کیلئے بہاولپور کو سجانے کی بجائے لاہور کو بینروں اور آرائشی محرابوں اور رنگ برنگے قمقموں سے سجایا جائے ۔ اس افتتاحی تقریب میں ریلی کے لئے سپانسر حضرات کو بھی نہیں بلایا جاتا ۔ بہاولپور اور قلعہ ڈیراور پر تین روز کیلئے کچھ ہلچل دکھائی دیتی ہے اور وہ بھی اس لئے کہ یہاں ریلی کا انعقاد ہونا ہوتا ہے ۔بہاولپور کے لوگوں کو ریلی میں حصہ لینے والی گاڑیوں کو صرف ایک جھلک دکھائی جاتی ہے جبکہ قلعہ ڈیراور پر جو بھی تقریبات ہوتی ہیں ، ان کا اہتمام کرنے کی ذمہ داری لاہور کے لوگوں پر ہوتی ہے ۔ کیٹرنگ اور صحرائے چولستان میں خیمہ بستی بسانے کے ٹھیکے بھی لاہور کے ٹھیکیداروں کو دیئے جاتے ہیں اور ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا عملہ جب چولستان آتا ہے تو وہ حاکموں کا بھی حاکم بن کر آتا ہے اور اپنی من مانیاں کرتا ہے ۔ چولستان میں دوسرے پروگراموں کے علاوہ ایک میگا میوزیکل ایونٹ بھی رکھا گیا ہے ‘ جس میں ٹی ڈی سی پی نے پنجابی گلوکار ابرار الحق و دیگر غیر مقامی گلوکاروں کو مدعو کیا ہے ۔ ٹور ازم کا دعویٰ یہ ہے کہ چولستان جیپ ریلی کے ذریعے ہم مقامی تہذیب و ثقافت کو متعارف کرانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ایونٹ کا ایک مقصد مقامی فنکاروں اور ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی بھی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ٹور ازم مقامی فنکاروں کو نظر انداز کر کے مہنگے داموں باہر سے گلوکاروں کو بلوائے گی تو مقامی فنکاروں کی کس طرح حوصلہ افزائی ہوگی؟ ٹور ازم والوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم باقاعدہ ٹینڈر کرتے ہیں اور ٹھیکہ الاٹ کرتے ہیں ، یہ بات در اصل چولستان میں رہنے والے محروم لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے کہ ٹینڈر اور ٹھیکہ جات کی الاٹمنٹ کی جو حقیقت ہے اس سے سب واقف ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ وسیب کے لوگ محروم ضرور ہیں مگر وہ اتنے بھی نادان نہیں جتنے کہ ٹور ازم کی بیورو کریسی سمجھتی ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بہاولپور کے موجودہ کمشنر آصف اقبال چوہدری کو چولستان اور چولستان کے فنکاروں سے محبت ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے غیر منصفانہ اقدامات کا خاتمہ کرائیں ۔ چولستان ڈیزرٹ ریلی کا مقصد یہ بتایا گیا تھاکہ اسے چولستان کی تہذیب و ثقافت کو فروغ ملے گا اور چولستان کے مسائل کے بارے میں لوگوں کو آگاہی ہوگی ۔ ان میں سے ایک بھی مقصد پورا نہیں ہوا۔ چولستان میں اس طرح کی کوئی کانفرنس ، سیمینار یا سمپوزیم نہیں کرائے جاتے البتہ ایک کلچرل نائٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے ، جس میں تمام فنکار باہر سے آتے ہیں ۔ چولستان ڈزیرٹ ریلی کے موقع پر اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے مقامی دستکاری کو فروغ حاصل ہو ، لائیو سٹاک کی ترقی ہو اور چولستانیوں کیلئے تعلیم ،صحت اور روزگار کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کے مسائل کا احاطہ کیا جائے ۔مگر افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ہماری گزارشات پر توجہ نہیں دی گئی اور وسیب کے لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے ، خصوصاً نوجوانوں کے ذہنوں میں احساس پیدا ہوا ہے کہ ان سے بنگالیوں سے بھی بد تر سلوک ہو رہا ہے اور وسیب کو بند گلی کی طرف دھکیلاجا رہا ہے۔ اگر چولستان جیپ ریلی کا حاصل یہی احساس محرومی ہے تو یہ وہ ملک و قوم کیلئے فائدہ کی بجائے نقصان دہ ہے۔