عمران خان کے لیے مشکلات بہت ہیں۔ مخالف سیاستدانوں کی مزاحمت کو کڑے احتساب کے عمل سے غیر موثر کیا جا سکتا ہے مگر مُنہ زور بیورو کریسی‘ ٹیکس خور صنعت کار و تاجر اور ترقیاتی فنڈز کے نام پر دیہاڑیاں لگانے اور اپنے اپنے حلقہ میں مرضی کے پٹواری‘ تھانیدار اور ڈی پی او تعینات کرانے کے عادی عوامی نمائندوں کامقابلہ؟ اپنے دعوئوں اور وعدوں پر عمل کریں تو یہ بلائیں آڑے آتی ہیں‘ نہ کریں تو عوام‘ میڈیا‘ انصافی کارکن اور سیاسی مخالفین مذاق اڑاتے ہیں۔ ؎ دوگونہ عذاب است جان مجنوں را بلائے صحبت لیلیٰ و بلائے فرقت لیلیٰ بگاڑ میں عشرے لگے۔ یہی ملک تھا جہاں ہر سڑک اور نہر بلکہ پگڈنڈی کے کنارے سایہ دار شجر تھے کہ مسافر جہاں تھکن محسوس کرے‘ سائے میں بیٹھ کر سستائے‘ تانگے اور گاڑیوں کا چلن عام ہوا تودرختوں کا جھنڈ نظر آیا وہاں تانگوں ‘ بسوں‘ ویگنوں کا سٹاپ بن گیا۔ بڑے شہروں سے دور دیہی علاقوں میں ذخیرے تھے۔ ہمارے چھوٹے سے قصبہ شکار پور کے جنوب میں اتنا بڑا ذخیرہ تھا کہ بچپن میں والد صاحب ہر طرح کا شکار کرتے‘ مغرب میں میلوں تک پھیلا قدرتی جنگل اور شمال میں چاچا نور محمد کا باغ جہاں سے آم مفت کھانے کو ملتے۔ ملتان شجاع آباد اور رحیم یار خاں کی طرح راجن پور کے شمال و جنوب میں بھی آموں کے باغات تھے اور کھجوروں کے جھنڈ۔ لاہور کے اردگرد سرکلر روڈ درختوں سے ڈھکی تھی اور منٹو پارک سے لے کر موچی دروازے تک پرانے شہر کے اردگرد سبزہ ہی سبزہ تھا۔ چاہو تو منٹو پارک کا چکر لگا لو ورنہ ٹیکسالی ‘ بھاٹی‘ لوہاری اور موچی دروازے کے باہر واقع پارکوں میں جی بہلائو۔ پاکستان ہی کے شہر تھے جہاں دکانوں کے تھڑے پر واقع چھوٹے چھوٹے سٹالوں سے میونسپل کمیٹی کے اہلکار روزانہ تہہ بازاری فیس وصول کرتے‘ روزانہ وصول کرنے کی حکمت غالباً یہ تھی کہ کوئی شخص اپنے آپ کو مستقل مالک یا کرایہ دار نہ سمجھے اور میونسپل کمیٹی بوقت ضرورت جگہ خالی کرا لے۔ دکان دار حق جتلا سکے نہ سٹال کا مالک۔ دونوں قانون کے سامنے مجبور و بے بس۔ خوانچہ فروشوں کو بھی ایک ہی جگہ ٹکے رہنے کی اجازت نہ تھی اور تجاوزات کی روک تھام کے لیے بلدیاتی اداروں کا عملہ روزانہ گشت کرتا۔ جس شخص پر رشوت خوری کا الزام لگتا‘ مُنہ دکھانے کے قابل نہ رہتا‘ چھوٹے بڑے سرکاری ملازمین اپنا معیار زندگی عہدے اور تنخواہ کے مطابق رکھتے کہ مبادا بدعنوانی کا الزام لگ جائے۔ برسوں قبل لاہور کی ایک نئی آبادی میں میرا ہمسایہ ایک سرکاری محکمے میں کلرک تھا‘ گھر والوں کے اصرار پر اس نے نئی سوزوکی ایف ایکس گاڑی خریدی مگر دفتر ہمیشہ وہ موٹر سائیکل ہی استعمال کرتا۔ جب بیوی بچوں کے ساتھ گائوں جانا ہوتا تو گاڑی نکالتا یا چھٹی کے روز بچوں کو گھمانے پھرانے نکل جاتا۔ میاں شہباز شریف نے لاہور میں بس سٹاپ پر انتظار گاہیں تعمیر کرائیں تو لوگوں نے خوب واہ واہ کی‘ واقعی قابل ستائش اقدام تھا مگر بہت کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ 1980ء کے عشرے تک صرف لاہور ہی نہیں ہر شہر میںبس سٹاپ پرانتظار گاہیں ہوا کرتی تھیں کہ شہری زندگی کا لازمی تقاضا تھا۔ ٹیکس چور تب بھی تھے بجلی‘ گیس اور پانی کے جعلی کنکشن لگتے اور سرکاری اداروں کے حرام خور اہلکار و افسران مال پانی بناتے مگر کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی دیہاڑیاں لگانے والے نہ ہونے کے برابر تھے ۔کسی کو بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے اور جائیدادیں خریدنے کا ڈھنگ آتا نہ اندرون ملک مغل بادشاہوں اور عرب شہزادوں کو شرمندہ کرنے والے محلات تعمیر کرنے کا شوق تھا۔ مہنگی درآمدی گاڑیوں‘ بلند و بالا پلازوں‘ شاہی محلات اور اندرون و بیرون ملک فارن کرنسی اکائونٹس کی خواہش 1980ء کے عشرے میں جاگی اور 1990ء کے عشرے میں حکمران اشرافیہ اور ان کے حاشیہ نشینوں کا ایمان بن گئی۔ یہ بے لگام خواہشات مقصد حیات قرار پائیں تو قانون شکنی‘ گراں فروشی ‘ منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ‘ رشوت ستانی‘ مالیاتی اداروں میں لوٹ مار اور قومی وسائل کی خرد برد لازم ٹھہری‘ سرکاری زمینوں پر قبضہ‘ جنگلات کی کٹائی اور تجاوزات میں سے کچھ بھی غیر قانونی نہ رہا اور ’’جو لُچا‘سواُچا‘‘ کا محاورہ زبان زد عام ہوا۔ کچی آبادیوں کے نام پر سرکاری زمینوں کے قابضین کو مفت الاٹمنٹ کی بدعت سے قبضہ گروپوں کو شہہ ملی۔ بھٹو دور میں سیاسی کارکن کرپٹ ہوئے اور جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں افغان جنگ اور ارکان اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈز نے سول و فوجی حکمران اشرافیہ‘ بیورو کریسی اور منتخب نمائندوں کو کرپشن کی بہتی گنگا میں اشنان کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا پھر چل سو چل۔عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کا رواج ایوب دور میں پڑا مگر یہ مختلف بڑے پراجیکٹس کے لیے لئے جاتے مثلاً انفراسٹرکچر کی تعمیر اور پسماندگی‘ جہالت اور بے روزگاری کے خاتمے کی سکیمیں۔ 80ء کے عشرے میں حکمرانوں اور بیورو کریسی کی عیش و عشرت اور لوٹ مار کے لیے قرض لینے کا آغاز ہوا۔1980ء اور 1990ء کے عشرے میں سول اور خاکی بیورو کریسی کی جھجک دور ہو گئی۔ گریڈ سترہ اٹھارہ کا افسر دو چار کنال کے بنگلے میں رہے‘ بچوں کو انگلش میڈیم سکول میں داخل کرائے جہاں فیس ڈالروں میں وصول کی جاتی ہے یا اٹھارہ سو سی سی گاڑی میں گھومے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میجر جنرل ایم ایچ انصاری مرحوم رائل کالج جموں کے فارغ التحصیل اور ایک ریٹائرڈ میجر کے صاحبزادے تھے اور ایل ڈی اے کے سربراہ رہے‘ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب سے قربت رکھنے والے ایل ڈی اے کے ایک سربراہ کی شہر میں پھیلی جائیدادوں اور سرکاری حلقوں میں اثرورسوخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ فوج کی ملازمت اور ایل ڈی اے کی سربراہی میں تو یہ سب کچھ نہیں بن سکتا لیکن قصور اس کا بھی نہیں جب ایل ڈی اے اور ضلع کچہری کے کلرک ڈی ایچ اے میں ٹھاٹھ سے رہتے ہیں تو یہ کیوں نہ رہے۔ عمران خان صرف حکومت کرنا چاہے تو موجیں ہی موجیں ہیں۔ دھڑلے سے آئی ایم ایف کا قرض لے کر‘ ارکان اسمبلی‘ وزیروں‘ مشیروں اور دوستوں کو نوازے۔ بیورو کریسی سے تعرض نہ کرے اور فوجی قیادت سے بنائے رکھے۔ پانچ سال تک حکمرانی پکی اور اگلی ٹرم یقینی مگر وہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینا نہیں چاہتا کہ یہ بلدیاتی اداروں کا حق ہے‘ سرکاری افسروں کے تقررو تبادلوں میں ان کی مداخلت کے خلاف ہے‘ تجاوزات کا وہ خاتمہ چاہتا ہے‘ جنگلات اگانے اور ملک کو صاف ستھرا رکھنے کا اُسے جنون ہے اور پولیس و بیورو کریسی کو وہ قانون کا پابند بنانے پر تُلا ہے‘ قوم ٹیکس دینے پر تیار ہے نہ سادگی اختیار کرنے کی روا دار۔ برسوں کی پختہ عادتیں بدلنا آسان بھی نہیں۔ لوٹ مار کا کلچر صرف اوپر کی سطح پر موجود نہیں ریڑھی اور رکشہ والا بھی اس کا عادی ہے۔ ہر مافیا سے لڑنے کے لیے وزیر اعظم کوجو ٹیم درکار ہے وہ اوِّل تو ہے نہیں‘ جو چند ہیں وہ بھی تذبذب کا شکار اور حکمرانی کا لطف لینے میں مشغول۔ چند دنوں میں سٹاک مارکیٹ‘ کرنسی مارکیٹ میں اتار چڑھائو ‘گرانی‘ بعض پولیس افسروں کا باغیانہ طرز عمل‘ آئی جی پنجاب کے تبادلے پر ناصر خان درانی کا استعفیٰ اور مختلف طبقات کی طرف سے ہڑتالوں کی دھمکیاں اس بات کا ثبوت کہ پنجاب میں قدم جمانے کے لیے کپتان اور اس کے ساتھیوں کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑے گی اور مختلف مافیاز کا مقابلہ صرف خوش کن بیانات اور تبدیلی کے نعروں سے نہیں ٹھوس‘ جاندار اور دلیرانہ اقدامات سے کرنا پڑیگا۔ صفائی نصف ایمان ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے اپنے ملک کو سنوانے سدھارنے اور غریبوں کی حالت بہتر بنانے‘ پانی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے عطیات کی اپیل بھی سنت رسول ﷺ ہے۔ جو لوگ صفائی اور عطیات کی مہم کو بھی عمران خان کے خلاف استعمال کرتے اور اسے بھکاری اور خاکروب کے القابات سے نوازتے ہیںان سے کچھ بھی بعید نہیں۔ ان مسخ ذہنوں کا مقابلہ مشکل ہے ناممکن مگر نہیں ‘عمران خان اور اس کے ساتھی سنجیدہ ہیں تو کام اور احتساب کی رفتار مزید تیز کریں کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ گاڑی چل پڑی تو غوغائے رقیباں خود بخود مدہم ہوتا چلا جائے گا اور جلد باز‘ زود رنج اور مفاد عاجلہ کے عادی عوام کی بے چینی کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائیگی۔ ؎ مشکلے نیست کہ آسان نشود مرد‘آن است کہ ہراساں نشود