جہاں تک یاد پڑتا ہے سیاست میں دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لئے چھوٹی برائی بڑی برائی کی نیم سیاسی نیم شرعی اصطلاح مرحوم قاضی حسین احمد کی اختراع تھی۔ موصوف کی پرجوش قیادت میں جماعت اسلامی نے حسب توفیق و حالات ، پیش آئیندہ انتخابات میں بڑی برائی یعنی پیپلز پارٹی کو راندہ درگاہ قرار دیا اور خود چھوٹی برائی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آئی جے آئی کا حصہ بن گئی۔اقتدار کا سدھایا ہوا ہما اسٹیبلشمنٹ کے پالے پوسے نواز شریف کے ہی سر پہ بیٹھنا تھا۔سو وہ بیٹھ کے رہا ۔یہ چھوٹی برائی بڑی برائی کی قاضیانہ اصطلاح آج کل بلاول کے ٹرین مارچ کے پس منظر میں یاد آرہی ہے جسے ٹرین مارچ کہتے خود محترمہ شیری رحمان بھی ہچکچا سی گئیں ۔ قاضی حسین مرحوم کے طاغوت پیما کو ہاتھ میں تھامئے ۔پنجاب میں لاہور کو ایک طرف رکھئے،سندھ میں کراچی کو ایک طرف۔پھر پورے پنجاب کا دورہ کیجئے اور ہمت ہے تو پورے سندھ کا دورہ بھی کر ڈالئے۔آپ کے لئے چھوٹی برائی بڑی برائی کا فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔حال یہ ہے کہ پنجاب کا وزیر اعظم جو کھاتا تھا تو لگاتا بھی تھا،اپنے برادر خورد کی مطلق العنان وزارت اعلی کی موافقت و معاونت کے باوجود لاہور سے ملتان موٹروے کی تکمیل نہ کرسکا۔نواز شریف نے موٹر وے اور ایٹمی دھماکہ کریڈٹ اتنے تواتر سے لیا کہ وہ بچے بچے کو ازبر ہوگیا لیکن نوے کی دہائی میں اسلام آبادسے لاہور موٹر وے ایم ٹو تو غالبا جنات کی مدد سے بنادی گئی کہ ارباب اقتدار کے کاروان یہیں سے گزرتے تھے لیکن جنوبی پنجاب غالبا برادر کبیر و خورد کی ترجیحات میں کبھی تھا ہی نہیں اور شہباز شریف کی تما م تر دلچسپی کا محور تخت لاہور تھا غالبا اسی لئے یہ موٹر وے تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور جنوبی پنجاب کے باسی دیگر بنیادی سہولیات کی طرح موٹر وے کی عیاشی سے بھی محروم رہے۔اس دوران نواز شریف تین بار وزیر اعظم اور شہباز شریف اتنی ہی بارسالم پنجاب کے وزیر اعلی رہے لیکن جنوبی پنجاب کو صوبائی دارالحکومت سے ملانے والا یہ منصوبہ جو2011میں مکمل ہونا تھا ٹلتا ہی رہا جبکہ اس دوران تخت لاہور زبردستی کے لال میٹرو بس منصوبوں اور اورنج ٹرین سے رنگین ہوتا رہا۔ دونوں کی بھاری قیمت قومی خزانے کو اٹھانی پڑی جبکہ اورنج ٹرین تو سفید ہاتھی بن کے رہ گئی۔خود ملتان کے سیاست دان اس موٹر وے کے شمال یا جنوب سے گزرنے کی بحث میں الجھے رہے۔بادشاہ گروں یعنی ق لیگ کے چوہدری خاند ان کی آمریت زدہ جمہوریت بھی اس محرومی کا ازالہ نہ کرسکی۔ ملتان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی جن پہ الزام تھا کہ انہوں نے صوبے کے وسائل کا رخ جنوب کی طرف کردیا ہے،یہ منصوبہ مکمل نہ کرسکے البتہ ملتان سے فیصل آباد موٹر وے کا افتتاح انہوں نے ضرور کردیا جو آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہوسکا۔اسی منصوبے کا افتتاح شاہد خاقان عباسی نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کیا کیونکہ ان کے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں تھاسوائے اس کے کہ وہ اگلے انتخابات کا انتظار کریں جو ان کے قائد نواز شریف کے بغیر ہونے تھے۔ستم ظریفی دیکھئے راجن پور میں بے نظیر شہید پل کا افتتاح بھی شاہد خاقان عباسی نے کرڈالاجبکہ وہ گزشتہ د و سال سے ٹریفک کے لئے کھلا ہوا تھا۔البتہ ا س پل کی رابطہ سڑکیں اگر تعمیر ہوگئی ہیں تو راقم کو مطلع کیا جائے۔جنوبی پنجاب کی محرومیاں تو شاید ہی کسی کے احاطہ تحریر میں آسکیں۔باری باری مرکز اور صوبوں میں اقتدار کی سواریاں گانٹھنے والی دونوں چھوٹی بڑی برائیوں نے اس صوبے سے آنکھیں بند کر رکھیں۔باقی ملک کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ سندھ کا حال اس سے بھی برا ہے۔کراچی تو خیر ایک علیحدہ مسئلہ رہا۔خود بلاول کے نانا کا شہر لاڑکانہ دیکھ لیجیے۔بے نظیر، بھٹو اور مرتضی بھٹو کا مرقد ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے رتو ڈیرو میں گڑھی خدا بخش کا حال دیکھ لیجیے۔ہر سا ل برسی کے موقع پہ پیپلز پارٹی کے پرچموں والی پراڈو اور پجیرو دھول اڑاتی دکھائی دیں گی اور باقی گیارہ ماہ یہی دھول یہاں کے باسی چیتھڑے لٹکائے پھانکتے رہیں گے۔لاڑکانہ اور اس کے اطراف کے دیہات گھوم پھر کر دیکھ لیجیے۔ بھٹوضرور زندہ نظر آئے گا لیکن جس عوام پہ روٹی کپڑا اور مکان جیسے بنیادی حقوق کو سیاسی نعرہ بنا کر احسان کی طرح ان کی گردنوں پہ دھرا گیا تھا،وہ نیم جان نظر آئے گی۔آج اگر بلاول سندھ کارڈ استعمال کر نے کی ناکام کوشش کررہا ہے تو اسے کم سے کم اس کارڈ میں بیلنس تو لوڈ کروا لینا چاہئے تھا ۔ سندھ کی بھوکی ننگی عوام بھٹو کے نام پہ نعرے بھی لگانے کے قابل نہیں رہی وہ آصف زرداری کی کرپشن بچانے کے لئے سڑکوں پہ کس لئے آئے؟بے نظیر انکم سپورٹ کے پندرہ سو روپے ماہانہ اگر کسی کی زندگی بدل سکتے تو آج مفلوک الحال سندھی منہ کھولے لاہور کی میٹرو کے قصے نہ سن رہا ہوتا۔اب ذکر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آہی گیا ہے جس کا نام تبدیل کرنے کا اعلان کرکے حکومت نے خوامخواہ سندھ کارڈ میں بیلنس ڈلوانے کی کوشش کی ہے، تو کیوں نہ ایک بار اس پروگرام کا آڈٹ کروا لیا جائے۔نام کا کیا ہے پھر تبدیل ہوتا رہے گا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ماروی میمن نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی کوشش کی تھی لیکن عمر حمید خان نامی ایک بیوروکریٹ ان کے راستے میں حائل ہوگئے تھے۔سوالاکھ جعلی شناختی کارڈ کس نے بنوائے اور کہاں استعمال ہوئے اس کا بھی حساب کتاب کرلیا جائے اور یہ بھی کہ یہی شناختی کارڈ منی لانڈرنگ کے میگا اسکینڈل میں تو استعمال نہیںہوئے جس کے مرکزی ملزم جناب آصف علی زرداری ہیں۔ کھاتے تو کھل چکے ہیں۔ زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی کو واپس بلانے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں اور یہ سندھ کارڈ سے بھی بڑا ٹرمپ کارڈ ہے۔ اسی بدحواسی میں بے چارے بلاول کو پھیپھڑوں کا سارا زور لگانے اور سندھ کارڈ لوڈ کروانے پہ لگادیا گیا ہے۔سندھ میں رہنے والے کس شخص کو علم نہ ہوگا کہ کہ صوبے پہ عملاً حکومت اویس ٹپی کی تھی جس کے خلاف احتجاجاً پیپلز پارٹی کا اٹھارہ رکنی فارورڈ بلاک بھی بنا تھا۔اویس ٹپی کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔عزیر بلوچ بھی ایسا ہی ایک سورج ہے۔ملیرڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین کوڑیوں کے مول بحریہ ٹاون کو فروخت کرنے کا معاملہ ملک ریاض کے سر سے تو ٹل گیا ہے لیکن مراد علی شاہ وصولے ہوئے 460ارب میں کس منہ سے سندھ کا حصہ مانگ رہے ہیں حیرت ہوتی ہے۔ بلاول تحریک انصاف کے کچھ وزرا کو کالعدم تنظیموں سے تعلق کا جو دھمکی آمیز طعنہ دے رہے ہیں اس کی تہہ میں ان کے والد گرامی کا منی لانڈرنگ میگا اسکینڈل ہی ہے کیونکہ منی لانڈرنگ ہی کالعدم تنظیموں کی فنڈنگ کا ایک ذریعہ اور پاکستان کے سر پہ فیٹف کی بلیک لسٹ کی لٹکتی ہوئی تلوار ہے۔یہ طعنہ نہیںکھلی بلیک میلنگ ہے۔