کہتے ہیں ہندوستان کے پانچویں شہنشاہ شاہ جہاں کا چہیتا بیٹامحمد دارا شکوہ فلسفہ وحدت الوجود پر یقین رکھنے والا صوفی مزاج آزاد منش آدمی تھا لیکن ایسا آزاد بھی نہ تھا کہ اقتدار کی رونقوں اور حرص کی زنجیریں توڑ ڈالتا صوفیوں کی تعلیمات سے متاثر ہونے کے باجود داراشکوہ اقتدار کی چاہ دل سے نہ نکال سکا اسکی دلی کیفیت ’’کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘‘ کی تھی وہ شاہجہاں کا لاڈلا تھا ساتھ ساتھ رہتا اور اپنے بھائیوں کے خلاف کان بھرتا رہتا ،شاہ جہاں ایک جہاندیدہ شخص تھا اس سے دارا شکوہ کی دلی کیفیت چھپی تھی نہ اسکے تینوں بھائیوں کی، اس نے بھانپ لیا تھا کہ چارورں شہزادے تاج سلطانی کے لئے تلواریں بے نیام کرنے سے نہیں چوکیں گے اس نے اپنے طور پر سلطنت کا چار حصوں میں بٹوارہ کرکے اس خون خرابے کو روکنا چاہا لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ،دارا شکوہ باپ کا چہیتا تھا سلطنت کی تقسیم کے بعد بھی باپ کے ساتھ ساتھ رہتا تھا یہ قربت رنگ لائی اور 1657ء میں شاہجہاں نے شدید علالت میں اسکو اپنا جانشین مقرر کر دیااس اعلان کے خلاف اورنگزیب عالمگیر اٹھ کھڑا ہوا سات رمضان کو سامو گڑھ میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں داراشکوہ کو شکست ہوئی اور وہ جان بچا کر دہلی پہنچ گیا ،عالمگیر آگرہ پہنچا اور اپنے بیٹے محمد سلطان کو شاہی قلعہ بھیج کر دادا شاہجہاں کو نظر بند کرادیا ،قتدار کا کھیل ایسا ہی ظالمانہ ہے دارا شکوہبھاگ کر لاہور آگیا اورنگزیب نے تعاقب کیا تو وہاں سے ملتان جا پہنچااورنگزیب پیچھے لپکا تو شہزادہ سندھ کی طرف نکل گیا اور پھر وہ ساری عمر بھاگتا اور جان بچاتا ہی رہا یہاں تک کے وہ اپنے قابل اعتماد ساتھی، مصاحب خاص فیروز منوچی کے ہاتھوں گرفتار ہوااور اسے زنجیریں ڈال کر دہلی اپنے ماں جائے کی طرف بھیجا گیا جہاں اسے اسکے بھائی اورنگزیب عالمگیر نے رات کی تاریکی میںسوتے ہوئے جگا کر بیٹے سے علیحدہ کیا اور گردن مارڈالی۔ اقتدار کے کھیل میں دوستیاں دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں ہماری سیاست کا اک ہی اصول ہے کہ کوئی اصول نہیں ،ایم کیو ایم اور تحریک انصاف میں اینٹ کتے کا بیر تھا ،یہ وہی عمران خان تھا جس کے خلاف ایم کیو ایم نے بگڑ کر کراچی پریس کلب پر بڑا جارحانہ مظاہرہ کیا جسے ایک رپورٹر کی حیثیت سے کور کرتے ہوئے میں نے ایم کیو ایم میڈیا کمیٹی کے ارکان کو مظاہرین میں سیتا وائٹ کے پوسٹر تقسیم کرتے دیکھا کراچی پریس کلب کے آس پاس کی دیواروں پر اب بھی کہیں نہ کہیں عمران خان کی کردار کشی ادھڑے چونے سے جھانک رہی ہوگی عمران خان بھی ایم کیو ایم کے حوالے سے بڑی سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیںانہوں نے کراچی میں تحریک انصاف کی کارکن زہرہ شاہدکے قتل کا الزام بھی ایم کیو ایم کے بانی پر لگایاتھا۔ یہ تاریخی حقائق سامنے ہوں توآجکل سامنے آنے والے حلیفوں میں فاصلے کچھ عجب نہیں لگتے،چینی آٹا بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ کی اشاعت واقعی ایک جرت مندآنہ اقدام ہے بساط سیاست بچھائے رکھنے والوںکے لئے یہ ایک اچھا فیصلہ نہیں ہے اس سے حکومت کے لئے خطرات بڑھیں گے، کرکٹ کی زبان میں ہی بات کی جائے تو عمران خان نے فیصل آباد کی ڈیڈ سلو وکٹ پر باؤنسر مارنے کی کوشش کی ہے جو شارٹ پچ بن کر بیٹسمین کو گیند لیگ پر باؤنڈدری پار پھینکنے کی پرکشش دعوت دے رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ اپوزیشن ہی ایسی نکمی ہے کہ اس سے یہ ڈھیلی ڈھالی گیند بھی نہ کھیلی جائے،سوال یہ ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف ردعمل قبل ازوقت نہیں ؟ جب کارروائی ہی فرانزک رپورٹ پر ہونی ہے تو کابینہ میں تبدیلیاں کیسی؟ جہانگیرترین کے خلاف محاذ کیسا؟ کیا وہ بوجھ بن چکے ہیں ؟ جہانگیر ترین تحریک انصاف کے ان بنیادی ارکان میں سے نہیں ہیں جو پارٹی کے اساسی رکن نجیب ہارون گنواتے ہیں ،جہانگیر ترین نے 30اکتوبر 2011کو مینار پاکستان کے جلسے میں عمران خان کاہاتھ اس وقت تھاماتھا جب عمران خان نے وقتی ضرورت کے تحت نظریاتی سیاست کے دروازے کے ساتھ ساتھ ’’electable‘‘کے لئے دروازے کے پٹ کھولے تھے ،جس کے بعدجہانگیر ترین ،شاہ محمود قریشی او ر ایسے بہت سے نام تحریک انصاف کی پریس ریلیز کا حصہ بننے لگے اور پھراسٹیبلشمنٹ سے قربتوں کے بعدان شخصیات کی آمد کا سلسلہ رکا نہ عمران خان کاوزیر اعظم ہاؤس کی جانب سفر،عمران خان نے نہ صرف وفاق میں حکومت بنائی بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی کامیاب ٹھہرے ،کہتے ہیں اس تگ و دو میں جہانگیر خان ترین اوران کا جہاز بہت کام آیاتھا۔ چینی بحران رپورٹ پروزیر اعظم کو شاباشی انکا حق بنتی ہے جو دینے کو جی بھی چاہتا ہے لیکن اس طرح کے بہت سے اصولی معاملات پر ان کی خاموشی ابھی تک کھل رہی ہے ،فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کا موقف کہیں سے بھی اصولی نہیں،ان کے وکیل کی پوری کوشش رہی ہے کہ یہ کیس آگے نہ بڑھے اس میں قدرے ناکامی ہوئی تو بندکمرے میں سماعت کی درخواست لگادی وہ بھی مسترد ہوئی اس سے پہلے پارٹی الیکشن میں شکایات کی تحقیق کرنے والے جسٹس ریٹائرڈوجیہہ الدین نے جہانگیرترین سمیت کچھ عہدیداروں کو موردالزام ٹھہرایا تھا لیکن الٹا جسٹس وجیہہ الدین کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا،موجودہ صورتحال میں جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے قریبی لوگ غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں اور اس میںوہ کتنے کامیاب ہوئے ہیں اسکا فیصلہ پچیس اپریل کوہوگا جب چینی بحران رپورٹ کی فرانزک رپورٹ آئے گی کہا جاسکتا ہے کہ جہانگیر ترین کے تحریک انصاف میں مستقبل کا فیصلہ پچیس اپریل کو ہوگا لیکن حکومت خبردار رہے جہانگیر ترین کو بوجھ سمجھ کر اتارنے کی کوشش خطرناک ہوگی ’’چک‘‘ بھی پڑسکتی ہے !