یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن نے پاکستان کے گھروں کے دروازے پر دستک نہیں دی تھی۔ ریڈیو پر رات گئے ڈرامے نشر ہوتے تھے، جنہیں پورا گھر ایک ساتھ بیٹھ کر انہماک سے سنتا تھا۔ اس دور میں سیلولائیڈ پر تھرکتی ناچتی اور بولتی تصویروں کی دنیا، گھروں سے باہر آباد ہوا کرتی تھی۔ شہروں میں سینما گھر فلمیں دکھاتے، جن میں درجہ بدرجہ ہر طبقے کا فرد حسبِ توفیق لطف اندوز ہونے جاتا۔ سینما بینوں میں واضح اکثریت مردوں کی ہوا کرتی ۔ چھوٹے بڑے شہروں میں چند ایک گھرانے ایسے ہوتے جو گھروالوں کو ساتھ لے کر اس تفریح کیلئے سینما کا رخ کرتے۔ فلمی دنیا کے ہیرو ہیروئن، لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ حجام کی دکانوں پر دلیپ کمار سے لے کر وحید مراد تک ہر ہیرو کی تصویر لگی ہوتی اور وہ بال کاٹنے سے پہلے پوچھتا کہ کیسے بال بنوانا ہیں۔ فلموں میں کام کرنے کا شوق اور جنون اسقدر تھا کہ ہر گلی محلے کی نکڑ پر کوئی نہ کوئی نوجوان لوگوں کے ہجوم میں فلموں کے ڈائیلاگ کی نقل کرتانظر آتا تھا۔ یار لوگوں نے فلموں میں کام کرنے کے جنون کا نام ’’فلمیریا‘‘ رکھا ہوا تھا۔ یہ لفظ ملیریا کے وزن پر تخلیق کیا گیا تھا ،کیونکہ ان دنوں مچھروں کی بہتات کی وجہ سے ہر کسی کو یہ مرض لاحق ہوتا اور ہر ذی روح نے ’’کونین‘‘ کی گولیوں کا کڑوا ذائقہ ضرور چکھا ہوتا۔ ہمارے شہر گجرات میں جہاں صبیحہ، عنایت حسین بھٹی، نشو، ممتاز، تصور خانم اور اعجاز جیسے اداکاروں نے جنم لیا، وہاں فلم میں سرمایہ لگانے کابھی جنون تھا اور ’’فلمیریا‘‘کا مرض بھی عام تھا۔ میرا ایک دوست جو قد کاٹھ میں مضبوط اورزورآور تھا، فلمیریا کا شکار ہو گیا۔ اداکاری کا شعور نہ ڈائیلاگ بولنے پر دسترس، لیکن جنون تو جنون ہوتا ہے۔ ایسا دیوانہ ہوا کہ والدین نے شہر کے فلمسازوں کی منت ترلے کر کے اسے لاہور فلم سٹوڈیو میں ’’داخل‘‘ کروا دیا۔ کئی سال خاک چھاننے کے بعد گجرات لوٹا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ سب دوست اس کے گرد جمع، اس کی کامیابی کی کہانی سننے کے لئے مشتاق تھے۔ پورے محلے کے ہجوم میں اس نوزائیدہ فلم سٹار نے بتایا کہ اسے پہلا سین ہی وہ ملا جو اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ سین میں چند بدمعاش ہیروئن کو اغوا کرنے کے لئے اس کے گھر میں چھلانگ لگاتے ہیں اور صحن میں لیٹی ہوئی ہیروئن کو چیختے چلاتے ہوئے اغوا کر کے لے جاتے ہیں ۔ ہمارے اس دوست نے کہا ، زندگی کا پہلا سین ہی میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ ’’میں نے فردوس کو کندھے پر اٹھایا اور دیوار پھلانگی‘‘۔ اس سین کو بیان کرتے ہوئے وہ جس سر خوشی سے جھوم رہا تھا، وہ آج تک میرے ذہن پر نقش ہے۔ میرا متجسس ذہن ہمیشہ سے اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا ہے کہ عورت کو اغوا کرنے میں ایسی کیا سرخوشی ہے کہ یہ سین ہر بھارتی، پاکستانی یہاں تک کہ ہالی ووڈ کی فلموں میں ضرورت کے تحت اور بلا ضرورت بھی فلمایا جاتا ہے۔ برصغیر کے تقریباً ہر علاقے کے کلچر میں ایسا مردانہ اظہارِ قوت و طاقت ضرور موجود ہے کہ بیگانی عورت کو اٹھا کر لے جانیوالے مرداپنے قبیلے، برادری اور خاندان میں معزز و محترم اور بہادری کی علامت تصور ہوتے ہیں۔ فلموں میں کسی خاتون کو اغوا کرنے کو ایک انتہائی منفی عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جسے رہا کروانے کیلئے ہیرو آسمان سے کودتا اور زمین سے برآمد ہوتا ہے۔ لیکن عورت کو ’’اغوا‘‘ کرنے کے عمل میں پتہ نہیں کیا لذت ہے کہ اس میںرومانیت بھرنے اور اسے دلچسپ اور رنگین بنانے کے لئے ڈاکوؤں کے سردار کو طوائف پر عاشق کروایا جاتا ہے اور پھر وہ طوائف کو استحصالی نائکہ اور دلالوں کی موجودگی میں اغوا کرتا ہے، اس خوشی میں جشن برپا ہوتا ہے اور اپنی آزادی کی خوشی میں طوائف ڈاکوؤں کے سامنے خوبصوررت رقص اور گیت پیش کرتی ہے۔ خاتون کو زبردستی اٹھا کر لے جانے کی خواہش شاید ہزاروں سال سے مرد کے اجتماعی ضمیر کا حصہ رہی ہے کہ آج بھی دنیا بھر کے لاتعداد معاشروں میں اسے ایک معاشرتی قبولیت کا شرف حاصل ہے، بلکہ بے شمار جگہوں پر تو یہ شادی کی مروجّہ رسومات کا ایک حصہ ہے۔ مغربی دنیا کی فلموں میں جب دلہا دلہن کو حجلۂ عروسی کی طرف لے کر جاتا ہے تو وہ اسے ہاتھوں میں اٹھا لیتا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایسا شاید خاتون کے احترام میں ہوتا ہوگا، لیکن جب میں نے پیرس میں دنیا کے سب سے بڑے عجائب گھر ’’لُو‘‘ (Luve) میں لگی ہوئی پینٹنگز کو بغور دیکھا توان میں اغوا ہونے والی عورتوں کو اسی انداز میں اٹھایا ہوا دکھایا گیا تھا۔ ’’ریمبراں‘‘ سے لے کر ’’پشکن‘‘ تک ہر مصور کی پینٹنگز میں دو طرح کے اغوا کے مناظر نظر آتے ہیں، ایک محبوبہ کا اغواعاشق کے ہاتھوں اور دوسرا جنگوں کے دوران فاتح سپاہیوں کے ہاتھوں۔ دونوں صورتوں میں ہر مصور کی تصویر ایسے مہارت سے بنائی گئی ہے کہ وہ مغویہ کی خوبصورتیوں کو نمایاں ضرور کرتی ہے۔ ان پینٹنگز کے مطالعے کے بعد جب میں نے فلموں کے ان مناظر پر غور کیا، جب دلہا اپنی دلہن کو اٹھا کر حجلۂ عروسی میں لے جا رہا ہوتا ہے تو ان میں ایک حیران کن مماثلت نظر آئی۔ خواتین کا اغوا یوں تو انسانی تاریخ کا بدترین باب ہے، جس سے کنیزوں کے بازار سجتے رہے، لیکن ایسا اکثر جنگوں کی صورت میںہوتا اور وہاں تو مرد بھی اٹھائے جاتے اور غلاموں کی صورت تقسیم کر لئے جاتے یا بازاروں میں بیچ دیئے جاتے۔ مگر محبوبہ کا اغوا دنیا کے ہر معاشرے کی رومانی داستانوں کا فتح مند حصہ رہا ہے۔ بلکہ آج کے جدید دور میں بھی انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیمیں بھی اپنی مرضی کی شادی کے لئے، والدین کے گھر سے بھاگنے یا آشنا کے ہاتھوں مرضی سے اغوا ہونے والی لڑکی کوبے حد احترام دیتی ہیں۔اغواکاروں کی محبت میں گرفتار ہونے کو دنیا بھر میں ایک نفسیاتی سچائی تسلیم کیا گیا،جسے ’’سٹاک ہوم سنڈروم‘‘ کہا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں مرضی سے اغوا کے بعد کی جانے والی شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے ، بس لڑکی یہ کہہ دے کہ وہ اپنی مرضی سے اغوا ہوئی تھی۔بلکہ اکثر ممالک تو ایسے ہیں جہاں مرضی کے بغیر بھی لڑکی کو اغواکر کے اگر شادی کر لی جائے تو پھربھی اسے قانونی شادی تسلیم کیا جاتا ہے۔ کرغستان میں شادی کا سب سے مقبول طریقہ یہی ہے کہ پہلے زورِ بازو دکھا کر کسی پسند کی خاتون کو اغوا کیا جائے اور پھر اس سے شادی کی جائے۔ اس رسم کو ’’آلہ کاچو‘‘ کہتے ہیں۔ سینٹرل ایشیا کی تمام ریاستوں میںایسی رسمیں کسی نہ کسی حد تک رائج ہیں۔ جاپان میں اس رسم کو ’’کتاگو‘‘ (Katague) اور اٹلی کے سسلی میں اسے ’’فیوٹینا‘‘(Futina) کہتے ہیں۔ امریکہ میں شدت پسند عیسائی گروہ ’’مورمون‘‘ میں اغوا کے ذریعے شادی عام ہے۔ان لوگوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہوتی ہیں، ایک عمومی اپنے مذہب کے حساب سے اور اور دوسری کسی دوسرے مذہب سے لڑکی کو اغوا کر کے ،مذہب تبدیل کروا کر کی جاتی ہے۔ یہ مورمون، ایرزونا اور یوتھا ریاستوں میں رہتے ہیں۔دس سال قبل امریکہ میں یہاں سے ایک ہزار ایسی عورتوں کی رپورٹ کی گئیں جن کا شادی کے بعد مذہب تبدیل کروادیا گیا۔لیکن اسے بھی ایک معمول کی رسم قرار دے دیا گیا۔ دنیا بھر میں عورت مرضی سے اغوا ہو یا زبردستی، اگر شوہر کے رنگ میں رنگ جائے، یہاں تک کے مذہب بھی تبدیل کر لے تودنیا بھر کے ممالک کے قوانین اس کا احترام کرتے ہیں۔ محبت کیلئے گھربار چھوڑنے والی عورت کوہر کوئی پناہ اور عزت دیتا ہے اور اس کی عظمت پر کہانیاں لکھی جاتی ہیں۔ گھر سے مرضی کے ساتھ بھاگنے یا مرضی سے اغوا ہونے والی لڑکی اپنے عاشق کی زبان اختیار کر سکتی ہے، ویسا کھانا کھانا پسند کر سکتی ہے، ویسے گیت گا سکتی ہے، ویسا رنگ ڈھنگ اپنا سکتی ہے، لیکن خبردار۔۔ وہ محبت میں اپنے محبوب کا مذہب ’’اسلام‘‘اختیار نہیں کر سکتی۔ ایسا کیا تو دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں گی۔