ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کے پیروں تلے زمین کھسک رہی تھی، چٹان کے ٹیلے پر کھڑے اس خاندان کے پانچوں افراد 6 گھنٹے زندگی و موت کی کشمکش میں دعائیں کرتے رہے، تھوڑے فاصلے پر بٹگرام کے مقامی لوگوں کا جم غفیر بے چینی اور شدید اضطراب میں اپنے قدم کبھی دائیں تو کبھی بائیں جانب بڑھا رہا تھا، بے بسی، چیخ و پکار نے قیامت خیز ماحول کا منظر قائم کر رکھا تھا، لوگ یا اللہ خیر، استغفرْللہ، یااللہ مدد، اللہ اکبر اور کلمہ طیبہ کا با آواز بلند ورد کر رہے تھے، چٹان پر موجود خاندان کے افراد کی کفیت ناقابل بیان تھی، ایک سے دو، دو سے تین اور بالآخر 6 گھنٹے پورے ہوتے ہی ایک بڑا سیلابی ریلا آیا اور جس سانحہ کا خدشہ تھا، وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچا، بٹگرام کے مقامی لوگ کئی اعتبار سے مخلص لوگ ہیں، انھوں نے اس خاندان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، حتی کہ اپنی جانوں کو بھی خطرات سے دوچار کیا مگر خاندان کے پانچ افراد میں سے صرف ایک کو ہی بچا پائے، اس وقت وطن عزیز کے گوشے گوشے سے ایسی دل دہلا دینے والی خبریں اور قیامت خیز مناظر سامنے آرہے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے جو کچھ عکس بند کیا جارہا ہے، بطور انسان کیفیت ناقابل بیان ہے، بٹگرام دلبر بالا سے گزرنے والے دریا سے آنے والے پانی کے بڑے ریلے کے باعث چٹان نما ٹیلے پر کھڑے خاندان کیساتھ جو حادثہ برپا ہوا، آپ، میں اور ہم سب اپنی آنکھیں بند کر کے چند لمحوں کیلئے اس کیفیت کو محسوس کرنے کی سعی کریں تو حقیقی درد کا ادراک تب بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مسلسل نارمل حالات میں ایک ٹیلے پر کھڑے رہنا ناممکن ہے اور اس خاندان کے افراد کھسکتی زمین، ماحول میں بلند ہوتی آہ وفغاں، شدید ترین خوف اور ہر سکینڈ موت سے ملاپ کی وحشت کا چھ گھنٹے شکار رہے، اس سے ملتے جلتے اور اس سے کہیں زیادہ خوفناک مناظر سیلاب اور بارشوں کی حالیہ تباہ کاریوں کی صورت میں منظر عام پر آرہے ہیں۔ تاحال تباہی کا حتمی تخمینہ نہیں لگایا جاسکا اور نہ ہی لگایا جاسکتا ہے کیونکہ سیلابی طوفان ابھی پوری طرح سرکش ہے، کمشنر چارسدہ نے شہریوں کو فوری طور پر علاقہ خالی کرنے کی اپیل کی ہے۔ نوشہرہ سے 4 لاکھ کیوسک پانی گزرنے کا خدشہ ہے، یہاں بھی مقامی افراد کو علاقہ خالی کرنے کا الرٹ جاری کردیا گیا ہے، 2010ء میں سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے، انھوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو سیلاب کی تباہی سے نوشہرہ کو بچایا جاسکتا تھا، بلاشبہ کالاباغ ڈیم اور مزید آبی ذخائر کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ کالاباغ ڈیم پر اعتراضات کو دور کر کے اسکی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے قومی مفادات کے ضامن منصوبے کے طور پر سب سیاسی جماعتوں کو مل کر لائحہ عمل بنانا چاہیے جبکہ زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ڈیمز ہوتے تو سیلابی پانی سے نقصان کی بجائے ترقی ہوتی، ملک میں آبی ذخائر کی ہر ممکن طریقوں سے زیادہ سے زیادہ معیاری تعمیر کیلئے قانون ساز اسمبلیوں کو مسلسل و مستقل جامع پالیسی ترتیب دینا ہوگی تاکہ ایک دور حکومت میں اگر انکی تعمیر شروع ہو تو آگلی حکومت بھی اسکی تکمیل پر کاربند رہے، آخر ہم کب تک ہر سیلاب کی صورت میں درجنوں بے گناہوں کی اموات، اربوں کھربوں کے انفراسٹرکچر کی تباہی اور خاندانوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی کا ضیاع کرتے رہیں گے۔ بھارت، امریکہ، اسرائیل کبھی نہیں چائیں گے کہ ہم ترقی کریں۔گویا ڈیمز کی تعمیر میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو صرف دورہ روس کے بعد پاکستان کے حالات کا جائزہ لے لیجئے، ہمیں اب اپنے ملک، اپنے لوگوں کے مفاد کا سوچنا ہوگا۔ حالیہ سیلاب کے نقصانات 2005 ء کے زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب سے زیادہ بتائے جارہے ہیں۔ تین ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہو چکا۔ ہم مذید پانچ سال پیچھے چلے گئے۔ آئی ایم ایف سے آئندہ ملنے والی قسط سے زائد کا نقصان ہوچکا۔ آئندہ قحط کا شدید خطرہ لاحق ہے، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ نقل مکانی سے بڑے شہروں پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ ٹورازم کے مقامات کی تباہی کے الگ معاشی نقصانات ہونگے۔ حکمران، سیاستدان اور متعلقہ ادارے ہوش کے ناخن لیں وگرنہ بھوک سے ملک خانہ جنگی جیسے حالات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس پہلے ہی خوراک کا ذخیرہ نہیں، اگر عالمی امداد سے وسائل دستیاب ہوگئے تو بھی درآمدات بڑھنے سے ڈالر کی قیمت بڑھنے سمیت کئی معاشی مسائل بڑھ جائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق ہونے والی تباہی سے نبردآزما ہونے کیلئے تین سے چار ارب ڈالر کی امداد درکار ہے، وہ دیگا کون؟ کس سے اور کیسے حاصل کرنی ہے؟ اسکی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، مگر خوف خدا نام کی کوئی چیز نہیں۔ وفاقی کابینہ اب پاک فوج کو امداد کیلئے بھیجنے کی منظوری دے رہی ہے، سندھ اور بلوچستان حکومت تو ایک طرف پنجاب اور کے پی کے کو ابھی تک پورا ہوش نہیں آیا، عمران خان کے ساتھ اب وزیر اعلی کے پی کے نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے، درخواست ہے؛ جناب کپتان کا انتظار نہ کیجئے، آگے بڑھ کر ریلیف کے عمل کو وسعت دیں، ایسا نہ ہو کہ عوام نوچ کھائیں! یہ کیسا تماشا ہے؛ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ فرماتے ہیں؛ سندھ حکومت پر تنقید کیساتھ متاثرین کے حالات دکھائیں تاکہ بین الاقوامی امداد لی جاسکے۔ درست! مگر ایم پی اے نعیم کھرل کے گودام میں راشن، ادویات، ٹینٹ وغیرہ کی ویڈیوز وہاں کے عوام دکھائیں تو اس خرابی بیسار کا علاج کیا ہے؟ مخترمہ فریال تالپور کے شوہر 50، 50 روپے تقسیم کر کے تالیاں بجوائیں، لاڑکانہ میں سیلاب متاثرین بے ضابطگیوں کے الزام کیساتھ پھٹ پڑیں، سکھر میں خورشید شاہ کے بیٹے کو متاثرین گھیر لیں، سائیں، سائیں کی صدائیں لگائیں اور وہ موبائل بند کرو کا کہہ کر چل دیں، اس طرح کے مسائل بدقسمتی سے ہر صوبے میں موجود ہیں، گو وزیر اعظم شہباز شریف نے ہیلی کاپٹر سے راشن تقسیم اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا لیکن چٹان پر چھ گھنٹے تک کھسکتی زمین جیسی دردناک کیفیت وفاقی اور صوبائی حکومتیں محسوس کرنے کو تیار نہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے، چھ گھنٹے نہیں، چھ منٹ ہی محسوس کرلیں تو سب کچھ ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔