یہ پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلم اُمہ، خصوصاً برصغیر کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ ایک گروہ نے حرمتِ رسول ﷺ کے معاملے میں گفتگو سے بھی الگ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس اُمت کی تاریخ میں یہ ’’جرآت‘‘ اور ’’حوصلہ‘‘ کسی اور بدنصیب کو آج تک حاصل نہیں ہو سکا۔ لوگ اہل بیت اور صحابہؓ کے بارے میں ہونے والی گفتگو سے الگ ہو جایا کرتے تھے، کچھ سیکولر ، لبرل اور ملحد حضرات ان بحثوں کا بہانہ بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو تنقید اور طعن و تشینع کا نشانہ بھی ضرور بناتے تھے۔ لیکن جب کبھی سید الانبیاء ﷺ کی حرمت ، ناموس اور عزت کا معاملہ آجاتا تو اسے اپنی آخری متاع تصور کرتے ہوئے اپنا حصہ ضرور ڈالتے۔ لاتعداد مثالیں ہیںکہ نشے میں دھت شعراء ، ادیب ایسی بے خودی کی حالت میں بھی ہر قسم کے مذاق میں شریک رہتے، برگذیدہ ہستیوں تک کا تمسخر اڑا لیتے ،لیکن اگر کوئی انہیں اس حالت میں دیکھ کر رسول اکرم ﷺ کا نام بھی لیتا تو مرنے مارنے پر اتر آتے۔مشہور شاعر اختر شیروانی کا قصہ اس ضمن میں کئی سالوں سے ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ سیدالانبیاء ﷺ کی ناموس کے بارے میں پارلیمنٹ میں ہونے والی گفتگو سے پیپلز پارٹی نے علیحدگی اختیار کی ہے ،جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے سینے پر قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے، جمعہ کی چھٹی، شراب اور ریس کورس پرپابندی اور آئینِ پاکستان میں حرمتِ سود جیسی اہم شقوں کی موجودگی کے تمغے سجے ہوئے ہیں۔ اس وقت کی پیپلز پارٹی میں بھی ایسے لاتعدادسیاستدان موجود تھے جو کیمونسٹ نظریات کی وجہ سے مذہب سے خاصے دور تھے، لیکن وہ سب لوگ چونکہ ایک جمہوری سیاست کر رہے تھے اس لیے وہ رسول اکرم ﷺ کے معاملے میں حساسیت اور لوگوں کے جذبات سے آگاہ تھے اور ان کا احترام کرتے ہوئے اوّل تو ایسے مرحلے پرپیش پیش ہوتے یا پھر کسی نہ کسی طور اپنا حصہ ضرور ڈالتے، کیونکہ حرمتِ رسول ؐ کیلئے بولنا، الیکشن میں ان کے لیے ایک متاع (Asset) بن سکتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول تک آتے آتے کیا واقعی سب کچھ بدل چکا ہے اور اس پارٹی میں ایسے افراد پیدا ہو چکے ہیں جو بحیثیت گروہ اس طرح کا سیاسی طور پر نقصان دہ طرزِ عمل بھی اختیار کرلیں ۔ ویسے تو وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا نکتہ بھی چونکا دینے والا تھا کہ اگر ہم نے فرانس کے صدر کی رسول اللہ ﷺ کے خاکوں کی سرکاری سرپرستی پر فرانسیسی سفیر کو نکالا تو پھر ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات بند کر دی جائیں۔اس موازنے کا ’’حوصلہ‘‘ اور ’’جرات‘‘ کسی بھی دوسرے کے حصے میں نہیں آسکی۔ سیاست دان کے دلوں میں ایسی باتیں ہوا کرتی تھیں، لیکن وہ فسادِ خلق اور مقبولیت تباہ ہونے کے خوف سے نہیں کیا کرتے تھے۔ میڈیا، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں بھی آزاد خیال لوگوں نے کبھی حرمتِ رسولﷺ پر جذبات کے اظہار کومعاشی مجبوریوں کے ساتھ نہیں تولا۔حیرت کی بات ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسی قوم کے سامنے کہا جارہا تھاجسے گذشتہ پچاس سالوں میں سے پچیس سال یہ درس دیا جاتا رہا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ پھرجب ہم نے گھاس کھا کر ایٹم بم بنا لیا اور تب دنیا بھر سے ہم پر پابندیاں لگ گئیںتو گذشتہ تیئس سال سے ہم قوم کو یہ درس دے رہے ہیں کہ ہم ایٹم بم پر کوئی سمجھوتا نہیں کرینگے۔ وہ قوم جو بحیثیت مجموعی سرکارِ دو عالم ﷺ پر جان قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہو، اس کے ذہن میں سیاست دانوں اور دانشوروں کی یہ منطق نہیں آتی کہ ایٹم بم بنانا اور پھر اس کی حفاظت کرنا کیا حرمتِ رسولؐ سے خدانخواسطہ زیادہ اہم ہے ۔ لیکن اب ایسا ہونا ضروری ہو گیاتھا۔ یہ وقت تو ایک دن یہاں آنا ہی تھا۔ وہ لوگ جو مدتوں سے اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ یہ خطہ قیامت سے پہلے بڑے معرکۂ خیر و شر کے میدانِ جنگ سے وابستہ ہے، تو انہیں یہ بھی معلوم تھا ایسے بڑے فیصلہ کن معرکوں کی صفوں میں سے ایسے لوگ نکل جایا کرتے ہیں، جن کے دل اس معرکے کے لیے پوری طرح نہ دھڑکتے ہوں۔ جب بھی کوئی بڑا معرکۂ خیر و شر برپا ہوا ہے،اللہ نے پیغمبروں کے لشکروں سے بھی ایسے لوگوں کو الگ کروا دیا۔ اس کی دو اہم مثالیں ہیں۔پہلی بنی اسرائیل سے ہے جن کا اصل ’’معرکۂ بدر‘‘ جالوت کے ساتھ جنگ تھی۔ بنی اسرائیل نے یوشع بن نونؑ کی سرکردگی میں جہاد کرکے فلسطین کو فتح تو کر لیا تھا، لیکن ایک مرکزی حکومت کی بجائے بارہ قبیلوں کی بارہ حکومتیں قائم کرکے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے جس پر اردگرد کی مشرک اقوام نے انہیں وہاں سے نکال کر دربدر کر دیا۔ تقریباً تین سو سال بعد اللہ نے ان کی اپنے بنی سموئیل سے اس فرمائش پر ایک سپہ سالار طالوت (Saul)عطا کیا تاکہ وہ اپنا علاقہ واپس لے سکیں۔ حضرت سموئیل نے دعا سے پہلے یہ سوال کیا ، ’’کیا تم قتال کرو گے‘‘، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہم کیوں نہیں ان سے قتال کریں جنہوں نے ہمیں گھروں اور بیٹوں سے نکال دیا‘‘۔یہ عہد لینے کے بعد ان پر اللہ کی طرف سے قتال فرض کردیا گیا ۔ لیکن جب موقع آیا تو بہت سے پیٹھ پھیر کر نکل گئے اورایک قلیل تعداد جالوت(Goliath)کے مقابلے میں اتری۔ یہ شخص بہت طاقتور تھا اور پورے جسم کو صرف آنکھوں کے سوراخ کے آہنی خود سے ڈھانپے رہتا تھا۔ اللہ نے اس چھوٹی سی جماعت کو اس کے مقابلے میں ثابت قدم کر دیا۔ جنگ میںحضرت داؤد ؑکہیں سے آنکلے۔وہ اس وقت ایک گڈریے تھے اور ان کے پاس گوپیا گھمانے کا فن ایسا تھا کہ طاق کر نشانہ لگاتے کہ شیروں کے جبڑے توڑ دیتے۔ جالوت نے جب مبازرت کا چیلنج کیا تو حضرت داؤد ؑ آگے بڑھے اور ایک پتھر گوپئے میں گھما کر ایسا مارا کہ وہ آنکھ کے راستے بھیجے میں اتر گیا۔ اس کے بعد حضرت داؤد ؑ جو اس وقت صرف ایک گڈریے تھے انہیں قرآن کے مطابق سلطنت اور امورِ سلطنت سب کچھ دے دیا گیا، ’’اللہ نے اسے سلطنت، حکمت عطاء کی اور وہ سب کچھ سکھایا جو چاہا‘‘ (البقرۃ: 255)۔ اس بڑے معرکے میں اللہ کی مشیعت کے دو اصول واضح ہوئے۔ پہلا یہ کہ فتح تعداد کی کثرت اور ٹیکنالوجی سے نہیں ہوتی ، فرمایا: ’’کتنی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آگئی اللہ کے حکم سے‘‘ (البقرۃ:249) اور دوسرا اصول یہ کہ اللہ کسی بھی شخص کو خواہ اس کی ایسی کوئی بھی تربیت نہ ہو، جب زمین پر اختیار دیتا ہے اسے تو حکمرانی کے تمام گر سکھا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخر الزمان میں حضرت مہدیؑ کے بارے میں ایک واضح حدیث ہے جس کے راوی حضرت علیؓ ہیں، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، ’’مہدیؑ میرے اہلِ بیت سے ہوگا، ایک رات میں اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فرما دیں گے‘‘ (ابوداؤد، ابنِ ماجہ) مسلمانوں سے رسول اکرم ﷺ نے ایسا سوال بدر کے موقع پر کیا تھا کہ دیکھو ایک طرف تجارتی قافلہ ہے اور دوسری جانب کفار کا لشکر ہے، کہاں چلیں،تو صحابہ کرامؓ نے رسول اکرم ﷺ کے سامنے سپر ڈال دی تھی اور یوں بدر میں مسلمانوں کے چھوٹے گروہ کو بڑے طاقتور گروہ پر فتح دے کر اللہ نے اپنا اصول واضح کر دیاتھا۔ لیکن جنگِ احد کے وقت ایسی چھانٹیوں اور علیحدگیوں کا مرحلہ آگیا تھا اورروانگی کے بعدلشکرسے تین سو منافقین نکل کر مدینہ واپس چلے گئے تھے۔ حق و باطل کے فیصلہ کن معرکوں میں ایسے لوگ ضرور علیحدہ کر دیے جاتے ہیں ،جن کا عالم یہ ہو کہ جب احد میں صحابہ کرامؓ سارا دن رسول اکرم ﷺ کی جان کی حفاظت پراپنی جانیں قربان کر رہے تھے وہ مسجد نبویؐ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ سیدلانبیاء ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق آخری بڑے معرکے کے دومیدانِ جنگ ہیں، جن میں ایک اس دھرتی پر برپا ہونا ہے، توپھر کیسے یہ نہیں ہوگا وقت سے پہلے اس ملک میں حق کیلئے خالص اور حق کے مخالفین اور ڈانواں ڈول ایمان والے علیحدہ کر دیئے جائیں۔ چھانٹیاں شروع ہیں۔ مزید تیز ہوں گی۔