منظر نامہ کیا ہے۔؟ پوری تصویر تو کوئی کہاں دیکھ سکتا ہے۔ دوبیانات کو دوجھلکیاں سمجھ لیں اور منظر نامے کا اندازہ کر لیں۔ پہلا بیان چودھری نثار کا ہے۔ ’’مرکز قومی تجلیات‘‘ سے گہری وابستگی اور ربط و ضبط کی وجہ سے بہت اہم ہیں۔ فرماتے ہیں‘ حکومت ‘ اپوزیشن اور مقتدر ادارے‘ سب بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ غور فرمائیے ‘ اور پکاریے کہ اے سبحان اللہ‘ کیا نکتہ بیان فرمایا۔ یعنی کم از کم ’’بندگلی‘‘ میں جانے کی حد تک سب ایک ہی پیج پر ہیں۔ بندگلی کے متفقہ منزل ہونے پر تینوں میں قوی اتفاق رائے ہے۔ اسے مزید آسان اور جامع بیان کی شکل دی جائے تو فقرہ یوں بنے گا۔ ملک بند گلی میں ہے۔ چودھری صاحب کو کوئی بڑی تبدیلی جلد ہوتی بھی نظر آ رہی ہے۔ دوسرا بیان ان سے قدرے بڑے سیاستدان منظور وسان کا ہے جو سندھ میں پیپلزپارٹی کے صوبائی سطح کے سیاسی رہنما ہیں۔ فرمایا کہ عمران خان نے جو کر دکھایا ‘ اس پر سب پریشان ہیں۔ قومی مرکز تجلیات سے ان کا بھی ربط و ضبط ہے اگرچہ نثار جیسا نہیں۔ بات میں اس لئے وزن ہو سکتا ہے اگرچہ لگتا نہیں ہے۔ معیشت و استحکام وغیرہ ان کے مسئلے ہی نہیں جو خاں صاحب کو لائے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ وسان صاحب کا کہنا ہے کہ سب پریشان ہیں۔ سب پریشان ہوں یا نہ ہوں خان صاحب کے حامی اور مداح خاص تعدادمیں خاصے پریشان ضرور ہیں۔ اور حیران بھی۔ اسی پریشانی اور حیرانی کے ذمہ دار یہ لوگ خود ہیں‘ خاں صاحب نہیں۔ خاں صاحب نے جو کارنامے کئے ہیں اور جو کر رہے ہیں اور جو کرنے والے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی غیر متوقع نہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ اپنے ’’منشور‘‘ کا کھلے لفظوںمیں اعلان کر چکے ہیں اور انہوں نے اپنے عزائم میں کچھ چھپایا نہیں اور دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنی گورننس اور منشور کا عملی نمونہ پختونخواہ میں پانچ سالہ حکومت کر کے دکھا دیا۔ ٭٭٭٭٭ ان کا اعلانیہ اعلان یہ تھا کہ وہ ایوب اور مشرف کا دور واپس لانا چاہتے ہیں وہ ان دونوں عظیم نمونوں کی تعریف اور ستائش میں مصروف رہتے ہیں‘ خاص طور سے ایوب خاں تو ان کے بہت زیادہ کامل و اکمل رول ماڈل ہیں۔ ایوب خاں کا ماڈل کیا تھا اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن دو سطری خلاصہ نکالنا ہو تو یہ چھ نکات بنتے ہیں۔1صدارتی نظام‘ جس نے متحدہ پاکستان کی قبر کھودی(یحییٰ، ٹکا نے تو محض گورکن کی ذمہ داری ادا کی)۔2جاہل عوام‘ بریانی پلیٹ پر فروخت ہو جانے والے عوام کو ووٹ کے حق سے محروم کرنا(صرف ایک لاکھ ملین’’منتخب‘‘ بی ڈی ممبران ووٹ دینے کے حقدار تھے)3۔معاشی طور پر ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کا غلام بنانا‘ سیاسی اور فوجی طور پر امریکہ کا محکوم بنا۔4۔20گھرانوں کی سیادت میں ایک طاقتور اشرافیہ کا وجود‘ یہ اشرافیہ اب کہیں زیادہ طاقتور اور مہیب ہو گئی ہے۔5کرپشن کا فروغ۔ ایوب خاں سے پہلے کرپشن قومی کلچر نہیں تھا، ایوب خاں نے اسے قومی کلچر بنایا۔ کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملا کر دس سال حکومت کی‘ خود بھی دونوں ہاتھوں سے قوم کی دولت لوٹی اور 20گھرانوں میں گندھارا‘ بنا کر اشرافیہ کے سربراہ بھی بن گئے۔ ان کا دور حکومت اور چلتا لیکن ایک غلطی لے ڈوبی۔ مادر ملت کو بھارتی ایجنٹ قرار دینے‘ انہیں دھاندلی سے ہرانے اور کچھ زہر دے کر انہیں شہید کرانے کے بعد اس خوف میں مبتلا ہو گئے کہ عوامی لاوا ان کے خلاف نہ بہہ اٹھے۔ اس خوف میں آکر ‘ عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے انہوں نے بھارت سے جنگ چھیڑ دی۔ ان کے چھ نکات کو بعدازاں ضیاء الحق اور مشرف نے فروغ دیا۔ پاکستان کی قیمت پر۔ خاں صاحب کے رنگ ڈھنگ انہی چھ نکات پر گھوم رہے ہیں۔ پٹرول گیس کی قیمتوں میں اضافہ در اضافے کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہے کہ وہ اشرافیہ سے ٹیکس نہیں لینا چاہتے‘ ان کے حصے کی رقوم عوام سے‘ ریاستی طاقت کے بل پر نکلوا رہے ہیں اور انہیں کنگال کر رہے ہیں۔ حیران ہونے والے ان کی پارٹی کی ہئیت ترکیبی کیوں نہیں دیکھ سکے۔ ایلیٹ اور سپر ایلیٹ کلاس کی نمائندگی کرنے والی جماعت مڈل‘ لوئر مڈل اور لوئر کلاس کا آخر کیوں سوچے گی؟ ٭٭٭٭٭ پختونخواہ میں ان کی گورننس کا ماڈل سب کے سامنے ہے۔ تعلیم و صحت کا ’’انسداد‘‘ انہوں نے کمال مہارت سے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نیاز مند قومی میڈیا اس پر اشارہ کنائی سے گریزاں رہا۔ ایک ہزار کے لگ بھگ سکول پرائمری اور ہائی‘ کالج بند ہوئے۔ ہسپتالوں کی حالت بگڑ گئی۔ ایک بھی تعلیمی ادارہ بنا نہ سکول۔ پورے صوبے میں اس دوران کوئی سڑک تعمیر نہیں ہوئی۔ پشاور میٹرو کا قصہ اپنی جگہ ایک داستان ہوشربا ہے۔ ہر پارٹی میں ’’ایماندار‘‘ لوگ ہوتے ہیں۔ ذرا گن لیجیے‘ سب سے زیادہ ’’ایماندار‘‘ کسی جماعت میں ہیں۔ ساری پارٹیوں میں مل کر جتنے ہیں‘ ان سے زیادہ اکیلی تحریک انصاف میں ہیں۔ دیکھ کر بھی ان دیکھی کرنے والے اب حیران ہو رہے ہیں لو ان کی حیرت پر حیرت ہے۔