سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیامیں کوئی ملک ایسا نہیں جمہوریت کے بغیر جس نے ترقی کی ہو۔ لندن میں بیٹھے اپنے قائد کے حالیہ بیانات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ہمیں بتایاکہ میاں صاحب کے نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔عباسی صاحب کے مطابق ن لیگ والوں کے خیالات آج بھی وہی ہیں، جو تیس سال پہلے تھے۔ سرسری حساب کتاب سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کو تاریخ ازسرنو لکھنے اور اپنی صوابدید کے مطابق واقعات کو سرے سے بھلا دینے کی لامحدود سہولت دستیاب ہے۔ یہ وہ سہولت ہے کہ مہذب جمہوری معاشروں میں اس کا یوں بے دریغ استعمال کرنے والے رسوائی اور ہمیشہ کے لئے گمنامی کی نذر کر دیئے جاتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں مگر مالی بد عنوانی، چوری اور سفید جھوٹ بولے جانے کو اس قدر برا نہیں سمجھا جاتا۔ لاہور ، فیصل آباد شاہراہ کے کنارے واقع ایک گائوں میں بسنے والے نسل در نسل چوری چکاری اور چھوٹی موٹی راہزنی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ اسی گائوں میں ایک نو عمر بچے نے اپنے ہی گائوں کی کسی گلی میں کھڑی سائیکل سے گھنٹی اتارلی۔ گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے سائیکل مالکان بچے کے والدین تک پہنچ گئے۔ کچھ بن نہ پائی تو بچے کی والدہ نے فریاد کی،’ گھنٹی کے بدلے پیسے لے لو، گھنٹی مگر واپس نہ لو۔پہلی پہلی چوری ہے بچے کا دل ٹوٹ جائے گا‘۔یہی بچے جب بڑھے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ،’ کھاتا ہے تو کیا ہوا ، لگاتا بھی تو ہے۔‘ رات کے پچھلے پہر ن لیگ کے ایک ایم این اے اپنی ہی پارٹی کی ایک رکن اسمبلی کے گھر کے باہر ان کے بھائیوں کے ہاتھوں پٹے، تو نظریاتی پارٹی واقعے کی تردید میں حیلے بہانے تراشنے لگی۔ سچ بولنے کی توفیق ن لیگی قیادت سمیت کسی ایک کو نہ ہوئی۔ امریکی صدر کلنٹن نے وائٹ ہائوس میں انٹرن لڑکی کے ساتھ تعلقات استوار کئے تو ان کو درپیش مواخذے کی بنیاد ’ناجائز تعلقات‘ نہیں بلکہ امریکی صدر کی دھوکہ دہی اور غلط بیانی پر استوار تھی۔ وطنِ عزیز میں مگرایک گروہ نے جھوٹ کی بنیاد پر پورے نظام کو گرانے کی ٹھان لی ہے۔سچ نہیں، ڈھٹائی کے ساتھ معاملات کو برتنے پر اصرار ہے ۔ میری رائے میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے تمام راستے بند پانے کے بعد اب اداروں پر حملہ آور ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے انگریزی محاورے کے مطابق اس بظاہر’دیوانگی‘ کے پیچھے ایک ’ سوچی سمجھی تدبیر‘ پائی جاتی ہے۔نواز شریف صاحب کے لندن سے پہلے خطاب اور ان کی صاحبزادی کی دھواں دھارپریس کانفرنس سننے کے بعد میرا اندازہ ہے کہ نواز شریف سال 1997ء اور اکتوبر 1999ء کے تجربات کو دہرانا چاہتے ہیں۔ خدا کرے میر ا یہ گمان درست نہ ہو کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی آنے والے دنوں میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اداروں بالخصوص عدلیہ اور پاک فوج پر دبائو بڑھاتے ہوئے ان کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔چند مخصوص جج جو قانونی طریقے سے بر طرف کئے گئے یا جن کے خلاف قانونی معاملات زیرِ سماعت ہیں، ان کو عدلیہ سے الگ کر کے پیش کرنے کی نواز شریف اور ان کی بیٹی کی حالیہ کوشش معنی خیز ہے۔ گزشتہ روز، اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف صاحب کے کیس میں اکتا کرمفرورمجرم سے متعلق سخت ریمارکس دئیے تو باپ بیٹی کی اندھی حمایت کرنے والا ا ایک نگریزی اخبار آج سرخی اور خبر کے متن میں اسلام آباد ہائی کورٹ نہیں، بنچ کے’ ایک ممبر‘ کو نمایا ں کرتے ہوئے نظر آیا ۔ دوسری جانب فوج کے ادارے پر دبائو بڑھاتے ہوئے اسے بھی مسلسل تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگرچہ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں، تاہم اس بودی دھمکی اور کارگل کے بعد اب دھرنے سے متعلق میاں صاحب کے ’ انکشافات ‘ کی مثال بھی اس مکّے کی مانند ہے جو لڑائی کے بعد یاد آیا ہو۔’ٹام ہاکا‘ میزائل تک بنانے کا کریڈٹ توخو د لیا جا رہا ہے مگر تہتر سال کی تما م تر برائیوں کے لئے ذمہ دار سلامتی کے اداروں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کے حصول پر میاں صاحب نے سڑک پر کھڑے ہو کر جو گفتگو فرمائی ہے، اسے سن کر میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ ان کوکم عقل جانوں یا کہ خود غرض! بیرونی دشمنوں کی سازشوں میں گھرے رہنے والے سلامتی کے اداروں کے خلاف ایک طرف میاں صاحب اور ان کی بیٹی کی ہرزہ سرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں تو دوسری طرف ان کے ایک اہم اتحادی نے پاکستان کو افغانستان بنانے کی دھمکی دے دی ہے۔ بائیں بازو کے دانشوروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور مذہبی انتہا پسندوں کے متفقہ رہبرو رہنماء نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ بگڑ گئے تو پاکستان میں’ ان کا‘ وہ حشر کریں گے جو افغانستان میں امریکیوں کا کیا گیا ہے۔ حواریوں کا دعوٰی ہے کہ اعلیٰ حضرت کو اگر نیب نے طلب کیا تو تیس ہزار مجاہدین ہم رکاب ہوں گے۔ جناب خاقان عباسی کو یاد رکھنا چاہیے کہ قومیں کسی خاص طرزِ حکمرانی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کے بل بوتے پر ترقی کرتی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں سے درجنوں مثالیں دے کرثابت کیا جاسکتا ہے کہ ہمیشہ انہی معاشروں نے ترقی کی کہ جہاںبدعنوانی، اقرباء پروری اور جھوٹ کو عام قبولیت حاصل نہ ہو۔ کسی خاص نظامِ حکومت نہیں، اچھے طرزِ حکمرانی کو جہاں فوقیت حاصل ہو۔ سویلین بالا دستی کا حصول سلامتی کے اداروں کی کمزوری میں نہیں، سول اداروں کی عمدہ کارکردگی میں مضمر ہے۔ قوموں کی حالیہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے۔ عا م تاثر کے بر عکس میں سمجھتا ہوں کہ باپ بیٹی کشتیاں جلانے والوں میں سے ہرگز نہیں ہیں۔ حالیہ دنوں تک دونوں ذاتی بقا کے لئے ہاتھ پائوں مارتے رہے ہیں ۔ ادھر اے پی سی کی تیاریاں جاری تھیں ، ادھر ان کے ایلچی ’ذاتی‘ ملاقاتیں کر رہے تھے۔ صاحبزادی مگران خفیہ ملاقاتوں سے انکاری تھیں تاآنکہ کچھ حصہ بے نقاب کر کے رکھ دیا گیا۔ سفید جھوٹ پکڑے جانے پرجو شرمسار ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اب جواب میں اداروں پر حملہ آور ہیں۔ باپ بیٹی بگڑے بچوں کی طرح اپنے ارد گرد سب کچھ جلا کر راکھ کرنے کو بضد ہیں۔سچ مگر نہی بولتے۔ ٭٭٭٭٭