ہم اتنے بودے لوگ ہیں کہ نہ ہم اپنی مادری زبان کی قدر کرتے ہیں نہ اپنی خوراک کی قدر کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے پرندوں‘جانوروں اور درختوں کی قدر کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مادری زبان کی قدر نہ کرنے والے صرف ہم پنجابی ڈھگے ہیں ورنہ پٹھان‘ بلوچ اور سندھی اپنی اپنی زبانوں کے عشق میں مبتلا ہیں اور پنجابی اپنی زبان سے شرمندہ شرمندہ رہتے ہیں۔چلئے ڈاکٹر سید عبداللہ اور مختار مسعود ٹھیٹھ پنجابی ہونے کے باوجود پنجابی بولنا گناہ سمجھتے تھے ۔بات کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنا اردو لب و لہجہ محفوظ رکھنا چاہتے تھے لیکن جماعت اسلامی کے امیر (اور یہ جماعت بھی کیسے کیسے امیروں کا چنائو کرتی ہے)میاں طفیل محمد خالص شائد آرائیں اور بہت خالص اچھرے کے باسی ‘انہوں نے اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ پنجابی تو گالیاں دینے کے لیے موزوں ہے۔بلھے شاہ ‘ شاہ حسین‘ سلطان باہو‘ میاں محمد اور وارث شاہ بے چارے گالیاں دینے کے لیے موزوں زبان میں اللہ تعالیٰ کی توصیف کرتے تصوّف کی منزلیں بیان کرتے رہے اور ہم اپنی خوراک کی بھی قدر نہیں کرتے۔ اپنے میاں صاحب جو ان دنوں آزاد پھرتے ہیں اگر سری پائے‘ نہاری یا عمران خان کا مغز شوق سے کھاتے ہیں تو ناہنجار مخالفین ان کی اس خوش خوراکی پر پھبتیاں صرف اس لیے کستے ہیں کہ یہ ہماری اپنی دیسی خوراکیں ہیں۔ اگر میاں صاحب کہتے کہ مجھے پیزا‘ برگر‘ سپاگیٹی یا سٹیک پسند ہے تو ہر جانب سے تحسین کی جاتی کہ واہ کیسے ماڈرن میاں صاحب ہیں۔ کم از کم خوراک کی پسند کے معاملے میں میرا ووٹ میاں صاحب کا ہے یعنی ووٹ شیر دا۔ اُدھر پرندوں سے بھی ہم بے وفائی کرتے ہیں۔ ساری عمر الاپتے رہتے ہیں کہ کاگا سب تن کھائیو اور میرے بنیرے نہ بول کاگا جا کاگا۔ یا ایک کوّا اگر کائیں کائیں کرتا ہے تو مہمان آنے والے ہیں‘ ادھر ہم کوئلوں کی نغمگی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ امبوا کی ڈال پر کوئل بولے۔ باغوں میں پڑے جھولے اور کوئل کوکتی جاوے اور ہم کوئوں اور کوئلوں کو بھلا کر چکور کو اپنا قومی پرندہ قرار دیتے ہیں۔ آپ ہی انصاف کیجئے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی ایک ناتواں سا چکور بھی دیکھا ہے۔ میں نے استور روڈ پر پہلی بار کچھ چکور دیکھے۔ بٹیرے جیسے تھے‘ بھوسے رنگ کے اور بہت ناتواں تھے شائد چاند کو حاصل کرنے کی خواہش میں اڑانیں کرتے کمزور ہو گئے تھے ۔اور باقی رہ گئے جانور‘ ہم نے اپنی بھینسیں اور ساہیوال کے بیل چھوڑ کر کسے اپنا قومی جانور قرار دیا؟ … مارخورکو …اور ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے کبھی مارخور دیکھا ہو۔ میں نے پوری کوہ نوردی کے دوران وادی شگر کی ایک چٹان پر کھڑے تین مارخور دیکھے تھے جو غروب آفتاب کی آخری کرنوں کے سنہرے پن میں سونے سے ڈھلے لگتے تھے۔ عین ممکن ہے کہ وہ مارخور نہ ہوں۔ ذرا بڑے سائز کے بکرے ہوں۔ بہرحال کتے تو نہ تھے۔ یقینا مارخور تھے۔ اب باقی رہ گئے ہمارے آبائی درخت جن کے ہم بیری ہو چکے ہیں۔ کم از کم بڑے شہروں سے ہم نے ان کو دھکیل دیا ہے اور ان کی جگہ ایسے غیر ملکی درخت کاشت کئے ہیں جو اگرچہ تیزی سے بڑھتے ہیں لیکن نہ ان کی چھائوں گھنی ہوتی ہے اور نہ ان میں کوئی مہک ہوتی ہے اور نہ ہی پرندے ان میں گھونسلے بناتے ہیں کہ پرندوں کے بقول اشرف شریف بڑے گھیر کے گھنے شجر ایسے درکار ہوتے جو انہیں پوشیدہ کر سکیں اور انہیں بارشوں اور آندھیوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلام آباد کی تعمیر کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ دنیا بھر سے ایسے درخت لائے جائیں جو بہت تیزی سے بڑھ جائیں اور دنوں میں سایہ دار ہو جائیں۔ ایسے درختوں کے بیج جانے کہاں کہاں سے درآمد کئے گئے اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انہیں اس نئے شہر کے ویرانوں پر چھڑک دیا گیا۔ چنانچہ نتیجہ خاطر خواہ نکلا اور اسلام آباد جھٹ پٹ ہرا بھرا ہو گیا۔ بہت مدت بعد ان غیر ملکی درختوں اور جھاڑیوں نے زہر اگلنا شروع کر دیا۔ ان کے پھولوں اور بیجوں میں سے طرح طرح کی سانس کی بیماریاں جنم لینے لگیں۔ میرے ایک انتہائی عزیز دوست جب کبھی بہار کے دنوں میں اسلام آباد جاتے‘ شدید قسم کی الرجی کا شکار ہو کر بیمار ہو جاتے۔ اسلام آباد میں ان اجنبی جھاڑیوں اور بوٹوں میں سے ایک زہریلی مہک اٹھتی جاتی۔ یہاں تک کہ پرندے بھی اسلام آباد کے درختوں میں گھونسلے بنانے سے انکاری ہو گئے۔ صبح کی نشریات کے زمانوں میں تقریباً دس برس اسلام آباد میں قیام رہا اور میں شام کی سیر کے دوران دیکھتا کہ پرندوں کے غول کے غول راولپنڈی کی جانب چلے جا رہے ہیں اور صبح سویرے جب میں ٹیلی ویژن سٹیشن کی جانب پیدل جا رہا ہوتا تو کیا دیکھتا کہ پرندوں کی ڈاریں پنڈی سے اسلام آباد کی جانب اڑتی چلی آ رہی ہیں۔ آخر کیوں؟ اسلام آباد کے بنجر پن میں ایک وحشی‘بھیڑیے کی خصلت والا شاندار شخص احمد دائود ہی تھا جو میرے ان مسائل کو حل کر سکتا تھا۔ احمد دائود نہ صرف یہ جانتا تھا کہ وہاں کسی پہاڑی گائوں میں اورنگ زیب عالم گیر کے زمانوں کا ایک کنواں ہے بلکہ وہ مجھے ایک چاندنی شب اسلام آباد ہائی وے کے ایک ویران حصے میں لے گیا جہاں چاندنی میں درجنوں سانپ ایک دوجے سے لپٹے ہوئے ملاپ کر رہے تھے۔ احمد دائود کہنے لگا ’’تارڑ‘‘ یہ پرندے اسلام آبادمیں گھونسلے نہیں بناتے کہ یہاں کے شجر غیر ملکی ہیں‘ راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ صبح سویرے اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں کہ یہاں ان کے لیے دانہ دنکا بہت ہوتا ہے۔ حرام کی کمائی کرنے والے بہت ہوتے ہیں اور شام کو وہ راولپنڈی لوٹ جاتے ہیں۔انتظار حسین اور مجھ میں کچھ بھی مشترک نہ تھا۔ نہ زبان نہ بیان نہ تہذیبی اشتراک البتہ پرندے ہمیں آپس میں باندھتے تھے۔ میں نے شائد اپنے کسی کالم میں پرندوں کی اس ہجرت کا تذکرہ کیا تو انتظار صاحب تو کھل اٹھے اور انہوں نے اپنے کسی کالم میں ان پرندوں کا ذکر کیا جو اجنبی شجروں میں گھونسلے بنانے سے انکاری ہو گئے تھے۔ اپنے مقامی ‘ تاریخی اور داستانوی درختوں کو جوان ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ وہ کسی سفیدے کی مانند جھٹ سے قد نہیں نکال دیتے۔ دھیرے دھیرے بڑھتے ہیں۔ سہج پکے سو میٹھا۔ وہ سہج سہج جوان رہتے ہیں اور ہم لوگ بے صبرے ہو چکے ہیں۔ ہم سے برسوں کا صبر نہیں ہوتا۔ ہم جھٹ پٹ کے نتیجے چاہتے ہیں کہ ادھر درخت لگائو اور ادھر اس کی شاخوں پر پاپی پپیہے گیت گانے لگیں۔ ہم جدا ہو گئے اپنے برگدوں سے‘ پیپلوں ‘ ٹاہلیوں‘ شرینوں اور کیکروں سے۔ کتنے شاندار سینکڑوں برسوں کی تاریخ کے گواہ برگد تھے جو ہم نے کاٹ ڈالے۔ اگر آپ کو برگد سے عشق ہو کہ اس شجر تلے ہی تو گیان ملتا ہے تو کبھی سرگودھا کے گائوں مڈھ رانجھا میں جائیے جہاں کئی ایکڑوں میں پھیلا ایک قدیم برگد ہے جو اپنی’’داڑھیاں‘‘ زمین میں بوتا چلا جاتا ہے۔ اور پھر پیپل جسے آپ نہیں اگاتے۔ وہ خود بخود اگ آتا ہے جہاں کہیں بھی کچھ نمی ہو۔ پرندے اس کا بیج بکھیرتے ہیں‘ ایک ایسا مقدس درخت جس کے ہر پتے پر قسمت کی لکیروں کی ایک ہتھیلی کھلی ہوتی ہے اور پرانے لوگ آگاہ ہیں کہ ہمارے خطوں کا سب سے عالی شان درخت‘ شیشم یا ٹاہلی‘ اسے کوئی بیماری لاحق ہو چکی ہے اور وہ مرتا جاتا ہے۔ ماڈل ٹائون پارک میں بیشتر درختوں کے تنے سوکھ چکے ہیں۔ شیشم کی موت دراصل ہماری ثقافت کی موت ہے۔ اگر ٹاہلیاں نہ رہیں گی تو ہم کیسے وہ لوک گیت گائیں گے کہ اُچیاں لمیاں ٹاہلیاں تے وچ گجری دی پینگ وے ماہیا ٹاہلیاں نہ رہیں تو ہماری سوہنیاں اور گجریاں کہاں جھولے ڈالیں گی زمانے وہی تھے صبح کی نشریات والے جب میں ایک بار بائی روڈ اسلام آباد جا رہا تھا تو روات کے قریب جہاں ایک شاہراہ تعمیر ہو رہی تھی‘ میں نے دیکھا کہ سڑک کے کنارے دو قدیم برگدوں کے لاشے اوندھے پڑے ہیں اور ان پر گجر پرندے منڈلاتے ہیں جن کے گھونسلے برگدوں کے ساتھ زمین بوس ہو چکے تھے۔ ان قتل کردہ برگدوں کے سوا سڑک کے عین درمیان میں دو اور بہت پرانے برگد ابھی تک اپنی جڑوں پر کھڑے تھے۔ لیکن ان کی جانب بھی کچھ بل ڈوزر بڑھ رہے تھے۔ میں نے اگلے ہفتے کی صبح کی ہر نشریات کا آغاز ان پرانے برگدوں کے تذکرے سے شروع کیا کہ یہ ہمارے بزرگ ہیں‘ انہیں قتل نہ کیجیے میں نے بہت ماتم کیا اور بہت درخواست گزار ہوا کہ بقیہ برگدوں کو مت کاٹیے۔ آج بھی اگر آپ بائی روڈ اسلام آباد جائیں تو روات کے قریب شاہراہ ذرا بل کھاتی ہے۔ اس کے درمیان میں برگد کے دو شجر ہیں۔ اب بھی شائد موجود ہیں اور ذرا کان لگا کر سنئے کہ ان میں بسیرا کرنے والے پرندے کیا کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ’’تھینک یو تارڑ‘‘ کہتے ہیں۔ لوگ عبادت کر کے ثواب کماتے ہیں۔ میں برگد کے قدیم درختوں کو آرے سے بچا کر عذاب تو نہیں کماتا؟ (جاری)