وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کے دو ارکان کے نام تجویز کر کے آئینی طریقہ کار کے مطابق ان تعیناتیوں سے متعلق اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے‘ وزیر اعظم نے اپنے خط میں جمیل احمد‘ فضل عباس میکن اور سکندر سلطان راجہ کے نام پیش کئے ہیں۔ آئین کی شق 213کی ذیلی شق 2اے کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور اراکین الیکشن کمشن کی تقرری کے لئے وزیر اعظم قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن سے مشاورت کے پابند ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے خط میں کہا کہ ان کی تازہ مراسلت کو 4دسمبر 2019ء کو شروع کئے گئے مشاورتی عمل کا تسلسل تصور کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے وزیر اعظم کا خط لندن میں مقیم اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بھجوا دیا ہے۔ کسی جمہوری ریاست میں انتخابی عمل عوامی اختیار کی علامت ہوتا ہے۔ انتخابی عمل جس قدر شفاف اور قابل بھروسہ ہو گا سیاسی و جمہوری نظام اسی قدر مستحکم سمجھا جائے گا۔ پاکستان میں ایک رواج سا ہو گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے لے کر پارلیمانی انتخابات تک میں شکست خوردہ جماعتیں دھاندلی کا الزام لگاتی آئی ہیں۔ کئی بار اس طرح کے اقدامات درست بھی ثابت ہوئے۔ انیس سو نوے کے عشرے میں اسلامی جمہوری اتحاد کی چھتری تلے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا۔ اس معاملے میں مسلم لیگ ن اور اس وقت اس کا ساتھ دینے والی جماعتوں کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب کرایا گیا۔ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں برسوں تک زیر سماعت رہا اور عدالت عظمیٰ کے سامنے دھاندلی اور اس کا طریقہ کار پوری طرح واضح ہو گیا۔2013ء کے انتخابات کے نتائج کو مقبول جماعت تحریک انصاف نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے اور پارلیمنٹ میں اسے لانے کی بجائے پی ٹی آئی کا تمسخر اڑایا۔ پی ٹی آئی نے 2014ء میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دیدیا۔126روز تک جاری رہنے والے دھرنے کا خاتمہ اگرچہ آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کے باعث ہی ہوا تاہم تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے تحریک انصاف کے نظرثانی شدہ مطالبے پر حکومت قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹوں کی پڑتال پر رضا مند ہو گئی۔ ان میں سے دو حلقوں میں بے ضابطگی ثابت ہوئی۔ وہاں ضمنی انتخابات ہوئے اور پی ٹی آئی کے امیدوار جہانگیر ترین جیت گئے۔ سپیکر سردار ایاز صادق بمشکل دوبارہ کامیاب ہوئے۔ سعد رفیق نے سٹے آرڈر لے لیا اور خواجہ آصف کی جیت درست قرار دی گئی۔ چار حلقوں کی پڑتال نے اس گمان کو پختہ کر دیا کہ پاکستان کا انتخابی عمل قابل بھروسہ نہیں۔ الیکشن کمشن اور اس کے سربراہ کا کام صرف انتخابات کرانا نہیں۔ انتخابی فہرستوں کی بروقت تکمیل‘ امیدواروں کے کوائف اور ان کوائف کی جانچ پڑتال‘ امیدواروں کی اہلیت کو دیکھنا انتخابی قواعد و ضوابط پر عمل کرانا‘ انتخابی نتائج پر اعتراضات اور عذر داریوں کی سماعت کے ساتھ ساتھ اراکین پارلیمنٹ کے طرز عمل کو آئینی حدود میں رکھنے کے سلسلے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ الیکشن کمشن کو ایک آئینی ادارے کے طور پر جن چیلنجز کا سامنا رہا ہے ان پر کسی دور میں توجہ نہیں دی گئی یہی وجہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ نت نئے تنازعات کا شکار رہا ہے۔ تحریک انصاف کا سابق چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے وقت مطالبہ تھا کہ مشاورت کا عمل وزیر اعظم اور لیڈر آف دی اپوزیشن کے درمیان محدود نہ رہے بلکہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے۔ جبکہ سابق حکومت اور اپوزیشن لیڈر تحریک انصاف کو اس عمل سے خارج رکھ کر اسے ریاستی امور میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے سے روکنا چاہتے تھے۔ لگ بھگ دو ماہ قبل چیف الیکشن کمشنر اور کمشن کے دو اراکین ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اس دوران الیکشن کمشن کسی سربراہ کے بغیر کام کر رہا ہے۔ بعض حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونا ہیں۔ چودھری نثار نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیت کر تاحال حلف نہیں اٹھایا۔ اس معاملے کی قانونی اور آئینی حیثیت کا تعین کرنا ہے۔ ملک بھر میں مقامی حکومتوں کے ادارے اپنی مدت پوری کر رہے ہیں۔ نئے بلدیاتی انتخابات کا معاملہ زیر التواء ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمومی نوعیت کے کتنے ہی فرائض ہیں جو ادا نہیں ہو پا رہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں تعلقات کشیدگی کے شکار رہے ہیں۔ ان تعلقات میں رابطہ کاری کی حد تک بہتری آ رمی ایکٹ میں ترمیم کے موقع پر دکھائی دی۔ اس دوران حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے حصے کا کام آئینی ضابطے کے مطابق انجام دینے کی حامی بھری۔ اس مفاہمت کے ماحول میں دونوں فریق اس بات پر رضا مند ہوئے کہ قبل ازیں وہ الیکشن کمشن کے اراکین اور چیف الیکشن کمشنر کے عہدوں کے لئے جو نام تجویز کر چکے ہیں انہیں واپس لے کر اس عمل کو ڈیڈ لاک سے نکالا جائے گا۔ اگرچہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان احتساب کے معاملے پر تنائو برقرار ہے مگر مشاورتی عمل کا ازسرنو آغاز ایک مثبت پیشرفت ہے جس سے امید بندھی ہے کہ جلد الیکشن کمشن ایک آزاد اور خود مختار ادارے کے طور پر جمہوری عمل کی نشو و نما میں کردار ادا کرتا نظر آئے گا۔