9 اگست 2018ء کو ’’ تارکینِ  وطن‘‘ کو ووٹ دینے کے حق سے متعلق کیس کی سماعت کے دَوران جب سیکرٹری الیکشن کمیشن جناب بابر یعقوب نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو بتایا کہ ’’ الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کو دو سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دینے اور خالی ہونے والی نشست کے اخراجات ، امیدوار سے وصول کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے مسترد کردِیا گیا تھا ۔ انتخابات کے لئے 21 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا ۔ ایک حلقے کے الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ ہو جا تے ہیں!‘‘ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’’ پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن، ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے کے اخراجات امیدوار سے وصول کئے جانے چاہیں!‘‘۔

معزز قارئین!۔ اپنے اِن ریمارکس سے چیف جسٹس صاحب میرے ہم خیال بن گئے ہیں ۔اِس لئے کہ ۔11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد ، 22 اگست 2013ء کو پورے ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے تھے تو اُسی دِن جناب مجید نظامی کے روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ ضمنی انتخابات ۔ ووٹروں کو سزا‘‘ ۔اُن دِنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب تھے ۔ چودھری صاحب کے بعد 12 دسمبر 2013ء سے 30 دسمبر 2016ء تک چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، چیف جسٹس ناصر اُلملک ، چیف جسٹس جواد ۔ ایس خواجہ اور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب کا لیکن شاید اُن میں سے، میرا کالم کسی نے بھی نہیں پڑھا اور نہ ہی میرا ہم خیال بنے کی کوشش کی؟۔ 

یہ "Credit" چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کا ہے کہ ’’ اُنہوں نے 9 اگست کو اپنی عدالت میں ضمنی انتخابات میں ہر انتخاب پر کروڑوں روپے کے اخراجات کا ۔ ’’ ساز پُر درد‘‘ چھیڑ دِیا۔ 28 اگست 2013ء کو شائع ہونے والا میرا کالم کافی طویل تھا جسے مَیں اختصار کے ساتھ پیش کر رہا ہُوں۔ 

’’ضمنی انتخابات ۔۔ووٹروں کو سزا؟‘‘

 آج پورے مُلک میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، اُن قومی اور صوبائی نشستوں پر جو۔ 11 مئی کو دو۔ یا۔ اْس سے زیادہ نشستوں پر، انتخاب جیتنے والے امیدواروں کے، مستعفی ہونے سے خالی ہُوئی تھیں۔ آئین پاکستان کے تحت ، ہر امیدوار کو ایک سے زیادہ نشستوں پر، انتخاب لڑنے کی اجازت ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کا، کوئی بھی لیڈر، ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب جیت کر، عوام و خواص پر، اپنی مقبولیت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو الیکشن کمِشن کی طرف سے، شیر ؔکا انتخابی نشان الاٹ ہُوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جنگل میں ایک شیر اور شکاری کا، آمنا سامنا ہو گیا۔ شکاری کے ہاتھ میں بندوق تھی لیکن خالی اور شیر بوڑھا تھا اُس کے دانت بھی جھڑ چکے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گُھورا- پھر اپنی اپنی راہ لی۔ انتخابی دنگل میں ایسا نہیں ہوتا ۔ جو بھی امیدوار کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے، وہ انتخاب سے بھاگ نہیں سکتا۔ ورنہ اُس کے انتخابی حلقے کے ووٹرز،اور الیکٹرانک میڈیا اُس کے مخالف اُس کا مُنہ چڑانے لگتے ہیں ۔

ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنا، کسی سیاستدان کی خوفزدگی کا مظہر ہوتا ہے۔ اگر وہ صِرف ایک نشست پر انتخاب لڑے اور ہار جائے تو ،پورے پانچ سال تک، پارلیمانی سیاست سے آئوٹ ہو جاتا ہے۔ کسی بڑے لیڈر کے کئی نشستوں پر جیتنے سے، اور پھراُ س کے ایک سے زیادہ چھوڑی ہوئی نشستوں پر، اْس کے بیٹے ، بیٹیاں، بھائی، بھتیجے، بھانجے، داماد اور دوسرے رشتہ دار، ضمنی انتخاب جِیت کر قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب بن جاتے ہیں اور اگر قبیلے کا سردار، وزیرِ اعظم یا وزیر اعلیٰ ہوتووہ، اْنہیں وزیر یا مشیر بھی بنا دیتا ہے۔ اِس طرح مختلف سیاسی خاندان وجود میں آجا تے ہیں۔ اِس میں کچھ حرج بھی نہیں۔ ’’اوّل خویش، بعد درویش ‘‘۔ یعنی پہلے اپنوں کو دو ، پھر درویشوں (فقیروں )کو !۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض فقیر ؔ سیاست میں کیوں دَر آتے ہیں ؟۔ بادشاہ کی طرح سیاست بھی نسل در نسل چلتی ہے۔ بعض ملکوں( اسلام ملکوں میں بھی) میں تو ، اب بھی چل رہی ہے۔ پھرہمارے پیارے پاکستان کے خاندانوں میں وراثت کی سیاست کیوں نہ چلے ؟۔ بقول شاعر نے کہا تھا…

وِراثت کو رکھو ہمیشہ عزیز!

وِراثت سے بڑھ کر، نہیں کوئی چیز !

مذہبی سلسلوںمیں بھی وراثت چلتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اولیائے کرام ؒ نے اسلام پھیلایا۔ مسلمان فاتحین۔ مفتْوحیِن کو تلوار سے زیر کرتے تھے اور صوفیائے کرام ؒ اپنی صِدق / خوش بیانی سے، مفتُوحیِن کے دِلوں کو فتح کر لیتے تھے۔ جِن مسلمان فاتحین نے متحدہ ہندوستان میں حکومتیں قائم کیں، انہوں نے اولیائے کرامؒ کی بارگاہوں میں قائم، لنگروں کے لئے زرعی زمینیں وقف کر دِی تھیں، جہاں ہر شخص کو بلا لحاظ مذہب و ملت ، مْفت کھانا ملِتا تھا ۔ بعد ازاں، اولیائے کرام ؒ کی اولاد نے، لنگرخانہ کے لئے وقف کی گئی زمینوں کو اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا۔ پھر، سب پِیر زادے، مخدوم زادے اور صاحبزادے بذریعہ سیاست پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی آ گئے۔ یعنی پیری کے ساتھ ساتھ، سیاست میں بھی وراثت !

مذہبی سیاست میں، اگر مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر ؒ-’’ علی برادران‘‘- کے نام سے نامور ہو سکتے تھے تو  ’’شریف برادران‘‘ اور’’ چودھری برادران‘‘کیوں نہیں؟۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اْن کے "  Talented Cousin " (ممتاز علی بھٹو) اور محترمہ بے نظیر بھٹو۔ ملک غلام مصطفی کھر کے حوالے سے ۔ کھر برادران۔ خان عبدالغفار خان کے بعد۔ خان عبدالولی خان اور پھر اسفند یار خان ولی خان۔ اور دیگر سیاستدانوں کے خاندان۔ ہماری قوم دو طبقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ووٹ لینے والا طبقہ اور ووٹ دینے والا۔ ووٹ لینے والے طبقے کا دعویٰ ہے کہ، اْسے ووٹ لینے کا حق حاصل ہے اور ووٹ دینے والے طبقے کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ۔ ووٹ دینا آپ کا فرض ہے ،اگرچہ ووٹ دینا ، ہر ووٹر کا اخلاقی فرض ہے، لیکن زیادہ تر ووٹر حضرات۔ اِسے ’’ فرضِ کفایا‘‘۔ سمجھ لیتے ہیں۔ نمازِ جنازہ کی طرح۔ پڑھی۔ پڑھی۔ نہ پڑھی۔ نہ پڑھی!۔کئی بار اِس طرح کی تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں کہ ’’ ووٹ ڈالنا لازمی قرار دیا جائے اور جو ووٹر، ووٹ نہ ڈالے، اْسے جرمانہ یا سزائے قید دی جائے!‘‘ لیکن ، ابھی تک تو یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی؟۔

جو لوگ کسی امیدوارکو ،ووٹ نہیں دینا چاہتے ( بلکہ اْس کی شکل بھی دیکھنے کے (روا دار نہیں ہیں) انہیں ووٹ دینے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے ۔ کیا انہیں ووٹ دینے کے لئے، مجبور کرنا، اُن کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ ۔ جو ووٹرز کسی ضمنی انتخاب میں ووٹ دیتے ہیں۔ انہیں دوبارہ ووٹ دینے کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اگر کوئی کامیاب امیدوار، کسی انتخابی حلقے سے جیتی ہوئی نشست چھوڑ دیتا ہے تو اِس میں اُ س حلقے کے ووٹروں کا کیا قصور؟۔ سزا تو اْس کامیاب امیدوار کو مِلنا چاہیے، جس نے اْس حلقے کے ووٹروں سے بے وفائی کی اور اْن کی نمائندگی کا وعدہ کر کے مْکر گیا۔ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ، کوئی بھی مسلمان اگر انصاف کر سکے اور ہر قسم کے حقوق پورا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو وہ بیک وقت چار بیویاں رکھ سکتا ہے، لیکن مَیں یہ بھی جانتا ہُوں کہ ’’آئین پاکستان کے تحت ، کوئی بھی مسلمان بیک وقت ، چار قومی / صوبائی اسمبلیوں کے منتخب رُکن کی حیثیت سے ، کسی سے بھی انصاف نہیں کرسکتا؟‘‘۔ 

میری تجویز ہے کہ انتخابات میں ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے پر پابندی لگا دی جائے، کیونکہ جب ہمارے سیاستدان ایک نشست رکھ کر باقی نشستیں چھوڑدیتے ہیں تو الیکشن کمِشن کو ضمنی انتخابات کرانا پڑتے ہیں، جِن پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اِس موقع پر مخالف امیدواروں کے حامیوں میں لڑائی جھگڑوں کے نتیجے میں کئی لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اگر ضمنی انتخابات کرانا آئینی تقاضا ہے تو اْن پر ہونے والے اخراجات اْن کامیاب امیدواروں سے وصول کئے جائیں، جنہوں نے ایک سے زیادہ نشستوں کو چھوڑ دیا۔ اور ضمنی انتخابات کے موقع پر، قتل اور زخمی ہونے والے لواحقین کو معاوضہ بھی وہی لوگ ادا کریں۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں ووٹر حضرات دوبارہ ووٹ ڈالنے کی سزا کیوں برداشت کریں ؟۔