جو لوگ کہتے تھے وزیر اعظم عمران خان دسمبر میں نظر نہیں آئیں گے اب انہوں نے انہیں مارچ2020تک کی ،، توسیع ،، دیدی ہے لیکن میرے خیال میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کے اقتدار کو کم از کم ایک سال کے لئے تو دوام بخش دیا ہے، اب عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ خود کہاں تک ٹھہرتے ہیں، اگر انہوں نے اپنی سیاست اور حکومت کا محور اپنی موجودہ ٹیم کو ہی بنائے رکھا تو کوئی بڑے سے بڑا نجومی بھی کوئی پیش گوئی کرنے سے قاصر رہے گا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انتہائی دانشمندی اور عادلانہ بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آرمی چیف کی تقرری، مدت ملازمت اور مراعات کا معاملہ حکومت اور پارلیمنٹ کی کورٹ میں ڈالا مگر بات عمران خان کے وزراء اور ان کے ترجمانوں کی سمجھ میں نہیں آئی، حکومت کا خیال ہے کہ جسٹس کھوسہ نے تو دسمبر میں ریٹائر ہو ہی جانا ہے اور ان کے پاس،، قانون سازی،، کے لئے چھ ماہ کی ،، لمبی مدت،، ہے وہ اس معاملے کو اپنی مرضی سے حل کر لیں گے، یہ سوچ حکومت کے گلے کا پھندا بن سکتی ہے، چیف جسٹس نے جونہی آرمی چیف کیس کی فائل بند کی، کابینہ کے ارکان نے بڑھکیں مارنا شروع کردیں کہ چھ ماہ کیا ہوتے ہیں نئے آرمی چیف اگلے تین سال بھی پورے کریں گے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے محترم آرمی چیف بھی ایسی باتیں برداشت نہیں کر سکتے، انہوں نے اپنی پچھلی مدت میں ملک اور قوم پر بڑے احسانات کئے ہیں، لیکن حکومت نے ان کی نئی تقرری سے جو تماشہ لگایا اسے کسی طور بھی قابل تحسین نہیں کہا جا سکتا، دو دن پہلے پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کو اختیار دیا گیا کہ وہ نامزد ہونے والے نئے ججوں کو،، طلب،، کر سکے گی اور جو نامزد جج ،، حاضر،، نہیں ہوگا اسے ،، فارغ تصور کیا جائے گا،،،،، کیوں؟ پہلے قوم کو یہ تو بتایا جائے کہ جو پارلیمانی کمیٹی نامزد ججوں کو طلب کرے گی اس کی اپنی اہلیت کیا ہوگی؟ کیا اس پارلیمانی کمیٹی میں صرف حکومتی ارکان شامل ہوں گے یا تمام اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس کمیٹی میں نمائندگی دی جائے گی، ماضی میں نئے ججوں کی تقرری کے حوالے سے کوئی اچھی مثالیں موجود نہیں ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے دور حکومت میں ججز تعینات کرنے کا موقع ملا تو بہت سارے جیالے وکلاء کو بھی نواز دیا گیا، (میں حبیب اللہ شاکر جیسے ایماندار اور اہل لوگوں کی بات نہیں کر رہا) ن لیگ والوں کو موقع ملا تو کئی بٹ صاحبان کی لاٹری نکل آئی، اور ماضی میں ہی جب جب عدلیہ کو آزادانہ طور پر نئے ججوں کی تقرریوں کے مواقع ملتے رہے اقربا پروری کے مظاہرے دیکھنے کو بھی ملے، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نئے ججوں کی تقرری کو عدلیہ کا ذاتی معاملہ قرار دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ اس کام سے حکومت کا کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہئیے، آئین میں اٹھارویں ترمیم کے وقت ن لیگ کے اس نظریہ پر تحفظات تھے اور وہ یہ اختیار حکومت کے ہاتھ میں ہی چاہتی تھی، ہمارے خیال میں موجودہ چیف جسٹس پاکستان کو جاتے جاتے اس مسلئہ کا بھی کوئی پائیدار حل پیش کرکے رخصت ہونا چاہئیے، ججوں کی تقرری میں ایک ایسی ٹرنسپیرنسی جو پوری قوم کو نظر آئے۔ ایک طرف تو آئین کا آرٹیکل 243آرمی چیف کی تقرری اور ریٹائرمنٹ کے بارے میں خاموش ہے مگر دوسری جانب آئین کے ہی آرٹیکل195اور 175میں ہائی کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر62سال اور 65برس درج ہے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ دسمبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور میں آج یہ سوچ رہا ہوں کہ انہیں ابھی اپنے منصب پر فائز رہنا چاہئیے تھا،حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ان کی جگہ آنے والے جسٹس گلزار اپنے پیش رو سے بھی بہتر ثابت ہو سکتے ہیں، ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے لئے اسمبلی میں ایک بل عرصہ سے زیر التواء ہے۔ اس بل کے خلاف پاکستان بار کونسل نے شاید ایک قرارداد بھی پاس کر رکھی ہے، میرے خیال میں تو جسٹس آصف سعید کھوسہ جیسے ججوں کو اس وقت تک کام کرتے رہنا چاہئیے جب تک ان کا جسم اور ذہن جوان اور توانا رہتا ہے۔ جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ سے خطاب کیا جو میں نے پورے کا پورا سنا، جسٹس آصف سعید کھوسہ مرحوم جسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں،کچھ مخصوص لوگ اس رشتے کو ان کی ذات کا ،، منفی،، پہلو تصور کرتے ہیں جو میری دانست میں صریحاً زیادتی ہے، ملتان میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ بتا رہے تھے کہ جب وہ لندن میں وکالت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ایک دن انہیں ان کے ایک انگریز ٹیچر نے بتایا کہ ایک زمانے میں برطانوی وکیل اپنے سائلین سے فیس نہیں لیا کرتے تھے، ان وکلاء کے لباس کے پیچھے ایک،، ہڈ،، لگا ہوتا تھا، جب کسی کلائنٹ کا کیس ختم ہو جاتا تو اگر اس کی استطاعت ہوتی وہ وکیل کو کچھ بتائے بغیر فیس کی رقم اس میں ڈال دیتا، اگر سائل کے پاس پیسے نہ ہوتے تو وہ اس کے،، ہڈ،، میں اپنی حیثیت کے مطابق گندم، چاول یا کوئی اور جنس ڈال دیتا تھا، پاکستان میں حالت یہ ہے کہ لوگ ایل ایل بی کرتے ہی لائسنس اپلائی کر دیتے ہیں اور مقدمات لینے کے لئے دفاتر سجا لیتے ہیں، حالانکہ پاکستان میں ہی ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ لوگ وکالت کی ڈگری لینے کے بعد ایک عرصہ تک سینئر وکلاء سے تربیت لیا کرتے تھے۔ ،،،، وکالت کبھی ایک مقدس پیشہ ہوا کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ یہ پیشہ اتنا بدنام ہوا کہ اسے شاعروں نے بھی موضوع سخن بنایا،،،،،، جسٹس کھوسہ کے برطانوی ٹیچر نے ایک بار لیکچر دیتے ہوئے یہ کہا تھا،،، اچھا وکیل وہ ہوتا ہے جو تاریخ، ریاضی اور لٹریچر کا بھی طالب علم ہو، تاریخ سے آگاہی اس لئے ضروری ہے کہ اگر آپ اپنے معاشرتی پس منظر کو نہیں جانتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے ملکی قوانین کے پس منظر سے واقف نہیں ہیں، آپ کو پتہ نہیں ہوتا کہ کوئی قانون کب بنا اور کیوں بنا؟ ریاضی سے واقفیت اس لئے لازمی ہے کہ اگر کسی وکیل کے اپنے مقدمے میں آرگومنٹس ،،،، میتھ میٹیکلی،،، پاور فل نہ ہوں تو وہ کبھی جج کو متاثر نہیں کر سکتا، کسی بھی وکیل کے لئے لٹریچر میں دلچسپی رکھنا اس لئے لازم ہے کہ کوئی بھی مقدمہ لڑنے اور مقدمہ جیتنے میں الفاظ کا چناو بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، عدالت میں جج کے سامنے اپنے مدعا کے اظہار کے لئے آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ نہیں ہے تو آپ کبھی ایک کامیاب وکیل نہیں بن سکتے،،، پاکستان میں وکلاء کے بارے میں میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے دوست کالا کوٹ پہننے کے بعد سب سے پہلے سیاسی پارٹیوں کی پناہ حاصل کرتے ہیں، روزانہ بیان بازی کے لئے صحافیوں سے دوستیاں کی جاتی ہیں، سیاست میں آنے اور عام انتخابات لڑنے کے لئے پیش بندیاں کی جاتی ہیں، عمومی طور پر سائلین سے مسلسل فیس اور مقدمہ کی تیاری کے نام پر پیسے تو پکڑے جاتے ہیں مگر سالہا سال تک ان کے کیس کی فائل تک نہیں پڑھی جاتی، اکثر وکیل صرف مقدمے کی اگلی تاریخ لینے کے سوا کچھ نہیں کرتے، تاریخ لینے کے لئے ریڈر کی مٹھی گرم کر دینا ہی کافی ہوتا ہے۔ کاش چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اندھے قانون اور دکاندار قانون دانوں کی اصلاح کے لئے کچھ کرجاتے، بے شک انہوں نے اچھا کیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح غیر ضروری طور پر قطعی متحرک نہ ہوئے، بلا وجہ از خود نوٹس نہ لئے، ،، چھاپے،، نہ مارے، بڑھک بازی نہ کی، رات کو ذاتی دوستوں سے مقدمات کے حوالے سے مشورے نہ کئے اور صرف اپنے کام سے کام رکھا لیکن اس کے باوجود میں اب سمجھتا ہوں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں حقیقی اصلاح لا سکتے تھے، حالانکہ یہ ان کا کام نہ تھا، جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب! پاکستان میں پوری قوم کی حالت اس مسکین مدعی جیسی ہے جو بہتر سال سے اپنے لئے ایک وکیل کی تلاش میں ہے، لیکن اسے اب تک کوئی وکیل نہیں مل سکا۔