چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سردار آصف سعید کھوسہ نے ملتان ‘ دیرہ غازی خان اور بہاولپور بار سے خطاب کیا ۔ ڈی جی خان میں چیف جسٹس نے سرائیکی میں خطاب کیا، جس پر میں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’’ زندہ باد چیف جسٹس سردار آصف سعید خان کھوسہ ! آپ نے سرائیکی میں خطاب کر کے وسیب کے کروڑوں لوگوں کا دل خوش کر دیا ۔‘‘ چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ عدلیہ کا آن لائن نظام لا رہے ہیں ، اب ہر جگہ ہائی کورٹ بینچ بنانے کی ضرورت نہیں ۔ ڈی جی خان بار کے صدر یاسر کھوسہ کے مطالبات کے جواب میں سردار آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ بلوچ روایت کے مطابق آنے والے مہمان کو کچھ دیا جاتا ہے ، مانگا نہیں جاتا ۔ اس بارے گزارش ہے کہ جو کچھ مانگا جارہا تھا ، وہ کھوسہ صاحب کی ذات سے نہیں بلکہ ان کے منصب سے طلب کیا جا رہاتھا ۔ جو کہ اس خطے کے لوگوں کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے بلوچی روایات کا جو ذکر کیا ، وہ بلوچی روایت نہیں سرائیکی روایت ہے ۔ چیف جسٹس جس سرائیکی زبان میں بات کر رہے تھے ، جغرافیائی و ثقافتی اصول کے مطابق جو شخص جس وسیب میں رہتا ہے ، اسی کی ثقافتی و لسانی شناخت وہی خطہ ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خطے میں بسنے والے افراد کو ڈبل مائنڈ کر کے ذہنی خلفشار کا شکار نہ کیا جائے کہ یہ ذہنی اذیت بہت بڑی اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ روزنامہ 92 نیوز کی خبر کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول نمبر 1 پہنچے تو انہوں نے اپنے سکول اور اپنے کلاس روم کا دورہ کیا ۔اپنے اساتذہ کرام اور کلاس فیلوز سے بھی ملاقات کی جبکہ سکول کے لان میں پودا بھی لگایا ۔انہوں نے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک روز کلاس میں استاد نے مجھے ڈنڈا مارا تو میں کلاس چھوڑ کر بھاگ نکلا اور بیگ اٹھائے سیدھے ضلع کچہری اپنے والد کو استاد کی شکایت لگانے پہنچ گیا ۔ سکول کے دورہ کے موقع پر ان کے بھائی سابق چیف سیکرٹری پنجاب ناصر محمود کھوسہ ، سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ بھی ان کے ساتھ تھے ۔ و ہ ضلع کچہری میں اپنے والد سردار فیض محمد خان کھوسہ مرحوم کی سیٹ پر گئے اور ایوان عدل میں یادگاری پودا بھی لگایا ۔ انہوں نے کہا کہ پرانے زمانے میں لوگ میرے والد مرحوم کو سائیکل پر دفتر جاتے دیکھتے تو اپنی سائیکل سے اتر کر ایک طرف کھڑے ہو کر راستہ دیتے ، یہ سوچ کر کہ وکیل صاحب جا رہے ہیں ۔ چیف جسٹس سردار آصف سعید خان کھوسہ نے بہت اچھا کیا کہ اپنے سکول کا دورہ کر کے پرانی یادوں کو تازہ کیا ، یہ ان کا بڑا پن اور عظمت کی نشانی ہے ۔ جہاں تک صحافیوں کی پلیٹ کا تعلق ہے تو ان کی بات سو فیصد درست ہے ، مگر اس مسئلے کو آگے تک لے جانا ہوگا کہ ایم پی اے ، ایم این اے ، دیگر محکموں کے اہلکار بھی لکھواتے ہیں اور جن افراد کے پاس ہومیوپیتھک کالج کی سند تک نہیں ہوتی ، وہ بھی ڈاکٹر لکھواتے ہیں ، طوطا فال والے خود کو پروفیسر لکھواتے ہیں ۔ اس حوالے سے طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔ میری سردار آصف سعید خان کھوسہ سے ملاقات نہیں مگر ان کے والد فیض محمد خان کھوسہ ایڈووکیٹ سے دوستی تھی ۔ واقعہ اس طرح ہے کہ ہمارے گاؤں دھریجہ نگر کے شاعر شفیع فدا دھریجہ کے بھائی مشتاق احمد پر مظفر گڑھ میں قتل کا الزام لگا ۔ سیشن کورٹ مظفر گڑھ سے سزا ہو گئی ۔ اپیل کیلئے میں نے اپنے دوست معروف ریسرچ اسکالر ڈاکٹر طاہر تونسوی سے مشورہ کیا کہ ملتان ہائیکورٹ بینچ میں اپیل کرنی ہے ، انہوں نے فرمایا کہ ملتان آ جائیں ، بہت سینئر وکیل فیض محمد کھوسہ میرے مہربان ہیں ، ان کو کیس دیتے ہیں ، ہم ملتان پہنچے ، کھوسہ صاحب نے شفقت فرمائی ، فیس میں رعایت کی ۔ میں کچھ سرائیکی کتابیں ساتھ لایا تھا جو ان کو گفٹ دیں ۔ وہ بہت خوش ہوئے ، ان کے پاس ایک کلرک عبدالقیوم کام کرتا تھا، کھوسہ صاحب نے اسے ہدایت کی کہ دھریجہ صاحب جب بھی پیشی پر آئیں ان کو موکل نہیں مہمان سمجھنا ہے اور ان کی خاطر مدارت کرنی ہے ۔ اس دوران میرا اور فدا دھریجہ صاحب کا ملتان آنا جانا رہا ، کھوسہ صاحب کو جب بھی فرصت ملتی ، وہ ہم سے باتیں کرتے ، وہ سرائیکی صوبے کے بھی قائل تھے مگر ان کا زیادہ زور تعلیم پر تھا ، ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے بغیر ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ کھوسہ صاحب کا پہلا ہدف سی ایس ایس تھا ، وہ فرماتے تھے کہ جب تک ہمارے خطے کے لوگ سی ایس ایس نہیں کریں گے ،بیورو کریسی میں نہیں جائیں گے تو ہمیشہ غلام رہیں گے۔ انہوں نے اس موقع پر ایک واقعہ سنایا کہ پہلے زمانے میں ہمارے خطے میں بچوں کو حافظ بنانے کا رواج تھا ، اب کچھ ترقی ہوئی تو سب ڈاکٹر کی طرف بھاگتے ہیں ۔ ان کو سی ایس ایس کی اہمیت کا پتہ ہی نہیں ۔ ایک ڈاکٹر ریٹائرمنٹ تک سنگل ڈاکٹر رہے گا اور جو بچہ سی ایس ایس کرنے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر بنے گا ، وہ ڈی سی ، کمشنر اور سیکرٹری تک جائے گا اور جب وہ سیکرٹری ہیلتھ ہوگا تو پورے صوبے کے ڈاکٹر اس کے ماتحت ہونگے۔ محکمہ صحت کے تمام ملازمین کواس کے انڈر کام کریں گے اور اربوں روپے کا محکمہ صحت کا بجٹ اس کے دستخط سے جاری ہوگا۔ سردار فیض محمد خان کھوسہ سرائیکی لور تھے ، الیکشن ہو رہے تھے ، سردار فیض محمد خان کھوسہ نے معروف سرائیکی شاعر سرور کربلائی کی ایک بات سنائی کہ دعا کریں میرا سردار جیت جائے ، کربلائی صاحب نے ہاتھ اٹھائے کہ ان کا سردار جیت جائے اور جیت کی خوشی میں مر جائے اور اس کا مخالف ہار جائے اور وہ بھی ہار کی خوشی میں مر جائے ، سردار فیض محمد خان اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب اور اپنی سرائیکی ماں بولی سے محبت کرتے تھے ، انہوں نے مجھے ایک بہت بڑی بات بتائی کہ ہماری کھوسہ برادری کے احمد خان طارق شاعر ہیں ، سرداروں کے مقابلے میں وہی ہمارے فخر ہیں ۔ سردار فیض محمد خان کھوسہ نہایت ہی سمجھدار انسان تھے ، انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ۔ دو بیٹے سی ایس ایس کرنے کے بعد اہم عہدوں پر پہنچے اور ایک بیٹے نے لاء کیا اور وہ عدلیہ کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہیں ۔ جس طرح فیض محمد کھوسہ کو اپنے وسیب سے پیار تھا ، ہماری خواہش ہے کہ اسی طرح سردار آصف سعید خان کھوسہ ڈی جی خان اور فیصل آباد بینچ بنوا جائیں اور ججوں کی آسامیوں کیلئے وسیب کا الگ کوٹہ مقرر کر جائیں ، آپ کے اس کارنامے کو یاد رکھا جائے گا ۔