اسلام آباد (خبرنگار )جوڈیشل کمیشن نے پانچ ،چار کی اکثریت سے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کی سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج کے طور پر ایک سال کے لئے تقرری کے حوالے سے ان کی نامزدگی کی مشروط سفارش کردی ہے ، بطور ایڈہاک جج سپریم کورٹ ،جسٹس احمد علی شیخ کی تقرری ان کی اس عہدہ کے لئے رضامندی سے مشروط ہو گی ،ذرائع کے مطابق احمد علی شیخ کی کی جانب سے عہدہ کے حصول سے معذرت کے باوجود جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین /چیف جسٹس گلزار احمد کی صدارت اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ کے 4موجودہ ججز، جسٹس مشیر عالم،جسٹس عمر عطابندیال،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر،سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس (ر) دوست محمد خان ، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان،وفاقی وزیر قانون و انصاف، فروغ نسیم اور پاکستان بار کونسل کے نامزد نمائندہ اختر حسین ایڈوکیٹ نے شرکت کی۔ اجلاس میں چار ممبران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،جسٹس مقبول باقر، جسٹس (ر )دوست محمد خان اور بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین ایڈوکیٹ نے آئین کے مختلف آرٹیکلز پر سیر حاصل بحث کے بعد احمد علی شیخ کی سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج مقرر کرنے کے اقدام کی سخت مخالفت کی،4ممبران کا موقف تھاکہ آرٹیکل 182 کے تحت سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو ایڈہاک جج مقرر نہیں کیا جا سکتا جبکہ چیف جسٹس گلزار احمد،جسٹس عمر عطابندیال، جسٹس مشیر عالم،وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے ان کی نامزدگی کی حمایت کی تاہم اٹارنی جنرل نے اس حوالے سے اپنا تین صفحات پر مشتمل تحریری موقف علیحدہ سے پیش کیا،جس میں کہا گیا کہ اگر وہ سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج مقررہونے پر رضامند ہیں تو میں تقرر کی حمایت کرتا ہوں، اگروہ ایڈہاک جج نہیں بننا چاہتے تو آئین اس معاملے پر خاموش ہے بعد ازاں اٹارنی جنرل ، تین ججوں اور وفاقی وزیرقانون کی اکثریت سے نامزدگی کی سفارش کردی گئی ۔دریں اثنا پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین،خوش دل خا ن ایڈوکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، احمد علی شیخ کو ان کی رضامندی کے بغیر سپریم کورٹ کا ایڈ ہاک جج نامزد کرنے کی مخالفت کی ہے ، انہوں نے کہا کہ یہ نامزدگی آئین کے آرٹیکل 182 کی بھی خلاف ورزی ہے ، کیونکہ کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر نہیں کیا جا سکتا ۔