ابھی چند روز قبل ہی چین کے صدر جن پنگ بھارتی دورہ کے بعدکھٹمنڈو نیپال پہنچے ۔نیپالی صدر بھنڈاری سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور ترقی اور باہمی شراکت میں تعاون کرنے پر اتفاق ظاہر کیا۔ چینی صدر کا کہنا تھا کہ میں نیپال کے لوگوں کے چہروں پر ہنسی دیکھ سکتا ہوں اور یہ مجھے دوستی کا احساس کراتی ہے۔ امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی دوستی بڑھے گی اور اس دورہ سے ہمارے دوطرفہ تعلقات نئی اونچائیوں تک پہنچیں گے۔ نیپال جنوبی ایشیا میں پہاڑی ملک ہے جس کی شمالی سرحد پر چین اور باقی اطراف پر بھارت واقع ہے۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ اس کے شمالی اور مغربی حصہ میں سے گزرتا ہے اور دنیا کا عظیم ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ اس کی سرحدوں میں پایا جاتا ہے۔یہاں بدھ مت اور ہندو دھرم کے حامیوں کی تعداد برابر ہے۔نیپال کی دفتری زبان نیپالی ہے مگر یہاں 26 زبانیں بولی جاتی ہیں اور تمام زبانیں قومی زبانیں سمجھی جاتی ہیں ۔نیپال ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے اس کا سبب بھارت کا سیاسی تداخل ہے۔ چینی صدر کے دورہ نیپال میں ریل رابطوں سمیت 20 معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک نے رابطوں، سکیورٹی، سرحدی انتظام، تجارت، سیاحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی تعلقات کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔جن پنگ نے نیپال کے’ ون چائنا پالیسی ‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چین ہمیشہ نیپال کی قومی سلامتی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا حامی رہا ہے۔ دونوں ممالک کو ہر شعبے میں ایک دوسرے کا تعاون اور’ ٹرانس ہمالیہ کنکٹی وٹی نیٹ ورک کا کام شروع کرنا چاہئے۔ جن پنگ گزشتہ 23 برسوں میں نیپال کا دورہ کرنے والے پہلے چینی صدر ہیں۔ بھنڈاری نے کہا کہ اس تاریخی دورہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور دوستی کے رشتے مضبوط ہوئے ہیں۔ جن پنگ نے نیپال کو اگلے دو سال تک 56 ارب روپے کی مالی امداد دینے کا اعلان بھی کیا۔ نیپال کسی زمانے میں دنیا کا واحد ہندو ملک تھا۔ شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد اس نے اپنے یہاں جمہوری آئین نافذ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم بھارت نے مبینہ طور پر اس کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لئے متعدد حربے اپنائے۔ 2015ء میں نیپال میں آئے زبردست زلزلے کے باوجودبھارت کی طرف سے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ نیپال میں ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ بھارت کے اس مبینہ اقدام نے نیپالیوں کو اس سے متنفر کر دیا ہے۔ نیپال میں سڑک سے جانے کا راستہ صرف بھارت سے ہوکر گزرتا ہے۔ لہذا عوام کی روز مرہ کی ضرورتوں کے لئے اسے بڑی حد تک بھارت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اب اس نے تجارتی روٹ پر بھارت کی اجارہ داری کو کم کرنے کے لئے اس کے دیرینہ حریف چین سے روابط بڑھانا شروع کردیے ہیں۔چینی صدر کا حالیہ دورہ بھی اسی ضمن میں تھا۔ نیپال نے چین کو اپنے یہاں چار بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ حالیہ دنوں میں چین اور نیپال کے درمیان اقتصادی تعلقات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس نے بھارت سے نیپال میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے ملک کا درجہ چھین لیا ہے۔ چین نے پچھلے سال نیپال میں آٹھ بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ دونوں ملکوں میں دفاعی تعلقات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ خطے میں اپنی چوہدراہٹ جمانے کے متمنی بھارت کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں پہلے پاک چین دوستی کھٹکتی تھی لیکن اب وہ چین کے نیپال سے تعلقات پر بھی اعتراضات اٹھانے لگا ہے۔ نیپال اور چین کی فوج نے پہلی مرتبہ مشترکہ مشقوں کا پروگرام بنایا جس سے قدرتی آفت یا کسی دہشتگرد حملے سے نمٹنے کے لیے نیپال کی فوج کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔لیکن حسب معمول بھارت ان فوجی مشقوں کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگا ہے۔ نئی دلی سرکار ان فوجی مشقوں کو بہت اہمیت دے رہی ہے اور دونوں ممالک کے بڑھتے فوجی تعاون کی نوعیت کا جائزہ لے رہی ہے۔ یہاں تک کہ نئی دلی میں تعینات نیپالی سفیرکو کہنا پڑاکہ ان مشقوں کے نتیجے میں ہمارے دوطرفہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ نیپال کی بھارت گریز پالیسی نے بھارت کی ان سفارتی کوششوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں جو وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر الگ تھلگ کرنے لیے کر رہا ہے۔ بھارت جنوب ایشیائی ملکوں کی تعاون تنظیم (سارک) کو بے اثر کر کے اس کی جگہ ’بے آف بنگال انیشی ایٹیو فار ملٹی سیکٹورل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن‘ ( بمسٹیک) کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ بمسٹیک ( BIMSTEC) ایک علاقائی تعاون تنظیم ہے۔ ابتدا میں یہ گروپ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا اور تھائی لینڈ پر مشتمل تھا۔ پھر میانمار بھی اس میں شامل ہوگیا، جس کے بعد اس کا نام بمسٹیک رکھا گیا۔ نیپال اور بھوٹان 2004ء میں اس کے مستقل رکن بنے۔ نیپال میں بمسٹیک کی سربراہ کانفرنس میںنریندر مودی نے رکن ملکوں کی پہلی مشترکہ فوجی مشقوں کی تجویز پیش کی ۔ لیکن عین وقت پر نیپال نے اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ جس پربھارت نے نیپال کے فیصلے پر ناراضی ظاہر کی ۔ بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیپال کے فوجی مشقوں میں شرکت سے انکار کرنے کے کئی اسباب ہیں۔ لیکن یہ بھارت کے لئے ایک سبق بھی ہے۔ بمسٹیک کو ترجیح دینے کی بھارت کی کوشش کا اصل مقصد سارک کی اہمیت کو ختم کرنا ہے۔لیکن نیپال کا مؤقف ہے کہ سارک کا احیاء کیا جائے اور وہ اس کی منسوخ کانفرنس کوجلد از جلد منعقد کرنے کے حوالے سے ماحول کو ساز گارکیا جائے۔سارک اور بمسٹیک ایک دوسرے کے متبادل نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ نیپال نے بھارت کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا، ’’خود مختاری، علاقائی سالمیت کا احترام کیا جانا چاہئے اور داخلی مسائل میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جانی چاہئے۔ دوستانہ تعلقات کے لئے یہ لازمی ہے۔چھوٹے پڑوسیوں کے بھی اپنے احساسات ہوتے ہیں، جنہیں سمجھنے اور جن کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔