بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے جب ریاستوں سے متعلق ایک وائٹ پیپر جاری کیا، تو اس میں بھی یہی رقبہ دکھایا گیا۔ 1891ء میں پہلی مردم شماری کے وقت ریاست کا رقبہ 80,900 مربع میل دکھایا گیا تھا۔مگر 1911ء کی مردم شماری میں رقبہ بڑھا کر 84,258مربع ریکارڈ کیا گیا۔مردم شماری کے کمشنر کی رائے پر 1941میں اس رقبہ کو گھٹا کر 82,258مربع میل کردیا گیا۔1951ء میں پہلی مردم شماری کے وقت اسی کو دہرایا گیا۔ البتہ 1961ء کی مردم شماری میں ریاست کے رقبہ کو بڑھا کر 86,024 مربع میل دکھایا گیا۔یہ جغرافیہ کہاں سے حاصل ہوا، ایک سیسپنس ہے۔ اس دوران کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت نے جموں و کشمیر کے رقبہ میں 3,766مربع میل کا اضافہ 1960ء میں پاکستان کے صدر ایوب خان کے ساتھ کراچی میں تاریخی سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کرکے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے وطن لوٹنے کے فوراََ بعد کیا۔ ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ مری کے مرغزاروں میں ایک غیررسمی بات چیت کے دوران وزیر اعظم نہرو نے معلوم کیا کہ کیا پاکستان چین کے ساتھ سرحدی تنازع کے سلسلے میں کسی طرح کی بات چیت کررہا ہے۔ جب ایوب خان نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے اس کے نقشے کوایک نظر دیکھنے کی درخواست کی۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ یہ ایک بالکل ہی غیررسمی ملاقات تھی۔ ایوب خان نقشے کی ایک نقل بھیجنے کے لیے راضی ہوگئے لیکن پنڈت نہرو نے دہلی لوٹتے ہی اس پر سفارتی ہنگامہ مچا دیا۔ انہوں نے ایک سفارتی نوٹس جاری کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ آفیشیل چینل کے ذریعے مذکورہ نقشہ بھارت کے حوالے کرے۔ نہرونے اسے پاکستان اور چین کی تیار کردہ سازش تک قرار دے دیا۔ قدرت اللہ شہاب کی تقریباََ انہیںباتوں کی تصدیق کرتے ہوئے اے جی نورانی نے اپنی کتابIndia-China Boundry Problem-1846-1947: History and Diplomacy میں لکھا ہے کہ وزارت خارجہ نے کس طرح پرانے نقشوں کو جلا دیا اور یک طرفہ طور پر ایک نیا موقف اپنایا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے صدر دفتر ساوتھ بلاک میں رات بھر چلے ایک آپریشن میں تمام نقشے جلائے گئے اور نئے نقشے ترتیب دئے گئے۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی طرف سے سترہ پیراگراف پر مشتمل ایک میمورنڈم جاری کیا گیا جس میں تمام پرانے نقشوں کی نفی کرنے کی ہدایت دی گئی۔ دستاویزی ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جو نئے نقشے تیار کئے گئے ان میں شمالی اورشمال مشرقی سرحدوں کوکسی لائن کے حوالے کے بغیر دکھایا گیا۔ پنڈت نہرو نے ان نقشوں کوبیرونی ملکوں میں تمام سفارت خانوں کو بھیجنے کا بھی حکم دیا اور مشورہ دیا کہ انہیں عوامی طور پر شائع کیا جائے اور اسکولوں اور کالجوں میں استعمال کیا جائے۔ انہوں نے حکام کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ان سرحدوں کو ٹھوس اور حتمی سمجھا جائے اورکسی کو ان پر بحث کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس میمورنڈم میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’کچھ معمولی نکات پر بات چیت ہوسکتی ہے لیکن ہم اسے اپنی طرف سے نہیں اٹھائیں گے۔ یہ ضروری ہے کہ پورے سرحدی علاقوں پر چیک پوسٹ کا سسٹم پھیلا دیا جائے خاص طور پرا ن علاقوں میں جنہیں متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے‘‘۔وزیر اعظم نہرو کے اس ہدایت نامہ نے سرحد کے متعلق بات چیت کے دروازے ہی بند کردیے۔ مغربی(کشمیر) اور وسطی سیکٹر(اترپردیش) میں ’غیر واضح سرحد‘ کا جو نشان 1948ء اور 1950ئکے سرکاری نقشے میں تھا اسے 1954ء کے نئے نقشے میں ختم کردیا گیا۔مزید برآں حکومت نے یہ تاثر بھی پیش کیا ‘ جسے کشمیری لیڈروں نے بھی بڑی حد تسلیم کرلیا ‘کہ پاکستان نے کچھ علاقہ چین کے حوالے کردیا ہے۔ تاہم دستاویزی ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت اسکے برعکس تھی۔ دراصل 3مارچ1963ء کو پاک‘ چین معاہدہ کے تحت چین نے ا پنا 750مربع میل کا علاقہ پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ تھا۔یونیورسٹی آف کلکتہ اینڈ نارتھ بردوان کے ڈاکٹر بی این گوسوامی کا بھی یہی خیال ہے کہ ’’محدود ہی سہی لیکن عوام کا ایک قابل ذکر طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ معاہدہ مناسب اور درست تھا ‘‘۔ بیرون ملک کے غیر جانبدار مبصرین اوراس موضوع کے ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ بھارت کے اس دعوے میں کوئی زیادہ زور نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنا علاقہ چین کے حوالے کردیا ہے۔ نورانی ایک منقسم کابینہ‘ غیر ذمہ دار اپوزیشن ‘لاعلم پریس اور غیر مستحکم پارلیمنٹ کو سرحد کے مسئلہ کو پیچیدہ بنانے کے لیے ذمہ دار گردانتے ہیں۔وہ مزید انکشاف کرتے ہیں کہ وزارت خارجہ میں شعبہ تاریخ کے ڈائریکٹر کے زکریا نے 1953ء میں جو جامع اور معروضی مطالعہ پیش کیا تھااس پر اب تک رازداری کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تاریخی حقائق اور سرحدی تنازع سے متعلق بھارتی پالیسی میں کوئی میل دکھائی نہیں دیتااور سفارت کاری نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنادیاہے۔چینی وزیر اعظم چو این لائی بھی 1960ء میں نئی دہلی کے دورہ کے دوران مسئلے کے کسی حل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے جب کہ چینی رہنما دنگ زیائو پینگ نے بھی 1978چین کے دورے پر گئے اس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی سے سرحدی تنازع کو حل کرنے کی بات کہی تھی۔ نورانی کا خیال ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان گہرے ہوتے اختلافات کے سفارتی نقصانات لامحدود ہیں بالخصوص ایسی صورت حال میں جب کہ بھارت کے اپنے پڑوسیوں اور خاص طور پر پاکستا ن کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔(ختم شد)