چین سے مرا رومانس بہت پرانا ہے۔ غالباً سال دوئم کا امتحان دے کر میں گرمیوں کی چھٹیاں منا رہا تھا کہ مرے ایک سینئر دوست اشرف قدسی نے مجھے بیجنگ سے چھپنے والا ایک جریدہ تھما دیا۔ اس میں چیئرمین مائوذے تنگ کی دس نظمیں چھپی ہوئی تھیں۔ جب میں نے انہیں پڑھا اور ان کی تعریف کی تو کہنے لگے‘ اس کا ترجمہ کیوں نہیں کر دیتے۔ وہ اسے ایک پرچے میں چھاپنا چاہتے تھے جسے وہ ایڈٹ کرتے تھے۔ چھٹیوں کے دن تھے۔ فراغت کا زمانہ تھا۔ امتحان کا بوجھ بھی سر سے اتر چکا تھا۔ ایک ایک نظم کا بار بار ترجمہ کرتا۔ دوستوں کو دکھاتا‘ کوئی مشورہ دیتا بحربدل کر ذرا دیکھو‘ کوئی اور بات سمجھاتا۔ الغرض یہ ترجمے چھپے تو ان کی بڑی شہرت ہوئی۔ انہی دنوں ابن انشا اور سجاد باقر رضوی جیسے بڑے شاعروں نے بھی ان نظموں کے ترجمے کئے تھے۔ وہ بڑے لوگ تھے۔ مرا ان سے کیا مقابلہ تھا۔ مگر شاید فراغت میں بار بار کی مری محنت رنگ لائی اور مجھے اس کا یہ صلہ ملا کہ بعض نقادوں نے اس کی بہت تعریف کی حتیٰ کہ اس زمانے کے جدید ترین ذہن کے نقاداعظم افتخار جالب نے اسے سب سے بہتر کاوش قرار دیا۔ مجھے بھی چسکا پڑ گیا۔ میں نے چین کی تاریخ و تہذیب پر ایک طویل مضمون لکھ ڈالا جس میں مجھے یاد ہے کہ میں نے فرانس کی مشہور مصنفہ اور فلسفی ژاں پال سارترکی شریک حیات(اہلیہ تو کہہ نہیں سکتا کہ وہ شادی کے ارادے پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے) سموں دی بوارکا حوالہ دیا تھا کہ چین میں تاریخ کا کام وقت کو مدار پر رکھنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ مدار کا لفظ میں نے ٹریک کا ترجمہ کیا تھااور آج بھی اس کے لئے مجھے کوئی دوسرا لفظ نہیں سوجھ رہا۔ اس دن سے یہ بات مرے ذہن میں بیٹھ گئی ہے کہ چینی تہذیب ایک تسلسل کے ساتھ ایک خاص مدار پر آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ چھلانگیں مارتی ہوئی نہیں دوڑتی‘ بار بار پٹڑی سے نہیں اترتی‘ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اس لئے اس کا شاید اپنا حسن ہے‘ اپنا انداز ہے حتیٰ کہ یہاں بادشاہی خاندانوں کا نظام ختم ہوا اور غالباً 1912ء میں سن یات سن کا انقلاب آیا تو یہ چین کا ایسا انقلاب تھا جس نے امکانات کی ایک نئی دنیا روشن کر دی تھی۔ غالباً اس کے بعد چیانگ کائی شیک کا زمانہ آ چکا تھا جب اقبال نے خبر دی ؎ گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے موجودہ تاریخ میں سن یات سن کا نام تو آتا ہے مگر ظاہر ہے چیانگ کائی شیک کو فطری طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ مائوزے تنگ نے کمیونزم کی جنگ اسی چیانگ کائی شیک کے خلاف جیتی تھی۔ شاید تاریخ کے سفر پر مدام میں چلتے ہوئے یہ زمانہ بھی اپنا اثر چھوڑ گیا ہو گا۔ دوسری جنگ عظیم چین نے اسی شخص کی قیادت میں جیتی تھی۔ اس وقت اس کے ہم پلا عالمی لیڈروں میں ٹرومین‘ چرچل اور سٹالن تھے۔ اب مگر اس کی علامت صرف تائیوان کا جزیرہ ہے۔ بہرحال وہ اور اس کی پارٹی کومن تانگ عملی طور پر مار کھا گئے اور مائوزے تنگ نئے چین کے بانی قرار پائے۔ مائو کے دور میں بھی کیا کیا انقلاب آئے۔ لیپ فارورڈ‘ ثقافتی انقلاب مگر چین کو دونوں راس نہ آئے۔ چین تاریخ مدار پر مدام چلتے رہنے سے عبارت ہے۔ اس پورے عہد میں ایک شخص جو چین کی عالمی حکمت عملی کا تسلسل تھا وہ چواین لائی تھا جو ہر انقلاب سے بچ کر نکلا۔ جب مائو کا وقت آخر آیا تو انہوں نے سب سے طاقت ور جانشین ڈینگ ژائو پنگ کو سائیڈ لائن پر کیا اورہوا کوفنگ کو اپنا نمبر دو بنا دیا۔ ہوا کوفنگ برسر اقتدار آئے تو کسی نے کہا کہ یہ تو بنو امیہ کی حکومت بننے کے مترادف ہے مگر چین کا سفر رکنے والا نہ تھا۔ دو سال کے اندر اندر ہی ڈینگ ژائو پنگ پارٹی کے زور پر اقتدار میں آ گئے اور تاریخ کا سفر آگے بڑھنے لگا۔ چین کمیونسٹ تھا مگر اس نے جدید سرمایہ دار نظام کے بہت سے پہلوئوں کو اپنا لیا تھا۔ یہ تاریخ عالم میں ایک بہت برا تجربہ تھا۔ سیاست وہی پرانی والی۔ معیشت مگر نئے والی۔ شاید چیانگ کائی شیک کے زمانے کے کچھ تجربے کام آئے ہوں۔ پتا نہیں‘ خدا ہی جانتا ہے اس دوران چین نے کئی بار ماضی میں بار بار جھانکا۔ ایسا زمانہ گزرا ہے جب وہ ازمنڈقدیم کے ایسے عظیم رہبر مفکر کنفیوسش کے خلاف ہو گئے تھے۔ کہ یہ پرانی اخلاقیات کا نمائندہ ہے مگر اسے دوبارہ زندہ کرنا پڑا۔ جس میں بدھ مت‘ تائو مت اورکنفیوشس ازم کا بڑا دلچسپ امتزاج ہے۔ وہاں عیسائی بھی گئے اور ہم مسلمان بھی۔ اسے مگر فی الحال رہنے دیتے ہیں۔ چین کے اس عہد نو میں تین افراد کی تصاویر چین میں نمایاں ہوتی رہی ہیں۔ سن یات سن‘ مائوزے تنگ اور ڈینگ ژائو پنگ۔ یہ تیسرا آدمی اتنا بڑا ادمی ہے کہ اس نے دنیا کی تاریخ میں بالکل ایک نیا تجربہ کیا۔ کمیونزم اور سرمایہ داری کو آپس میں ایسے ملایا کہ سیاست کی جگہ سیاست اور معیشت کی جگہ معیشت۔ روس کی قیادت ایسی کسی سوچ کا مظاہرہ نہ کر سکی‘ اس لئے پہلے دور میں جمہوریت کے نام پر وہ روس کو تتر بتر کر بیٹھی۔ گوربا چوف کے بعد یلسن نے جب اقتدار سنبھالا تو یوں لگتا تھا کہ کمیونزم ‘ سرمایہ داری کے ہاتھوں ماسکو میں مار کھا گیا ہے۔یہ تو پیوٹن نے آ کر سنبھالا ہے مگر چین نے تو علم سیاسیات کے تمام نظریے بدل ڈالے۔ اور تاریخ کا سفر بھی جاری رکھا‘ کسی ٹیڑھے پن سے نہیں‘ بلکہ ایک مدار کے اندر رہ کر۔ چین کے موجودہ صدر بھی ایک وژنری ہیں۔ جنہوں نے چین کو ایک نیا پھیلائو دیا ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب چین نے جاپان کو پیچھے چھوڑا اور دنیا کی نمبر دو معیشت بن گیا اور اس راستے پر روانہ ہوا جب دنیا اس خیال کے نشے میں ہے کہ وہ دن دور نہیں جب چین دنیا کی نمبر ایک معیشت ہو گا۔ ہم پر مائو ‘ ڈنگ ژزائو پیک اور ژی تینوں کا زمانہ گزارا ہے اور یہ ایک دوستی کا سفر ہے۔ شاید ہمیں اس کی اتنی قدر نہیں ہے جتنی ہونا چاہیے۔ یہ کہانی میں نے ایک تسلسل کے ساتھ اس لئے بیان کی ہے کہ مرے جیسا شخص جو کمیونزم کا ذکر تک گوارا نہیں کرتا‘ چین کی اس داستان کو یوں مزے لے لے کر سنا رہا ہے۔ میں نے جب کالم کا آغاز کیا تھا تو مرا ارادہ یہ لمبی چوڑی داستان سنانا نہیں تھا بلکہ عمران خاں کے دورہ چین پر محتاط سا تبصرہ کرنا تھا تاہم لگتا ہے مرے لاشعور نے مجھے اندرسے مشورہ دیا ہے کہ مزید احتیاط کرو۔ ڈر ہے خبر بدنہ مرے منہ سے نکل جائے۔ یہ دورہ ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے ہمارے لئے کیا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت تو بیجنگ بلدیہ کی ڈپٹی میئر نے ہمارے وزیر اعظم کا استقبال کیا ہے۔ یہ ویسے بھی کوئی دو طرفہ دورہ نہیں ہے یہ تو ون روڈ ون بیلٹ کانفرنس ہے جس میں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف دونوں کے سربراہ آئے ہوئے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کی ورلڈ بنک کی سی ای او سے ملاقات ہو گئی ہے۔ صدر ژی نے ایک عشائیہ بھی دینا ہے۔ گزشتہ کانفرنس میں ہمارے وزیر اعظم نواز شریف تھے۔ اس عشائیے میں صدر ژی نے نہ صرف پاکستان کی تعریف کی تھی بلکہ پاکستانی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو اپنے دائیں طرف بٹھایا تھا۔ اس وقت اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی۔ سلمان غنی بتاتے ہیں کہ میاں صاحب نے جب باتوں باتوں میں کانفرنس کے بارے میں پوچھا تو سلمان غنی نے جواب دیا کہ ہوا تو بہت اچھا مگر یہ بات کسی کو ہضم نہیں ہو گی۔ کہتے ہیں میاں صاحب نے سر جھکا لیا۔ جب واپسی پر سعودی عرب میں ٹرمپ نے کانفرنس سجائی اور ہمارے وزیر اعظم وہاں گئے تو لوگ بتاتے ہیں۔ راستے بھر تقریر کے نکات تیارکرتے رہے۔ مگر انہیں تقریر کا موقع ہی نہ دیا گیا۔ کہتے ہیں میاں صاحب نے صرف اتنا تبصرہ کیا کہ اچھا ہوا تقریر سے بچ گیا۔ تاہم ان کے قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ میاں صاحب نے تقریر میں ایران کو کوسنے دینے سے انکار کردیا تھا۔ ہم جس اعلان شدہ ایجنڈے کے تحت گئے ہیں وہ کوئی ایسا خاص نہیں ہے۔ تاہم بہت سی باتوں کا انحصار اس دورے پر ہے۔ ذرا غور کیجیے‘ ابھی ابھی بتایا گیا ہے کہ ورلڈ بنک کے سی ای او کے ساتھ ملاقات میں مشیر تجارت رزاق دائود اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ موجود تھے۔ دونوں غیر منتخب‘ دونوں عالمی لابی کے طرفداراور دونوں نے کسی زرداری کا حلف بھی نہیں اٹھا رکھا کہ بقول رضا ربانی یہ ان کے لئے ضروری نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہونا ہے‘ کھرے کھوٹے کا سب احوال کھل جائے گا… اس وقت تو ہم صرف دعا کر سکتے ہیں کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اور کچھ نہ کر سکیں تو کم از کم اپنی تاریخ کو اس کے مدار پر ہی قائم رکھ سکیں وگرنہ …مری جان بڑی سخت خرابی ہو گی۔