بھارت نہایت پسپائی اورشرمندگی کے ساتھ بالآخرچین کی شرائط پرمقبوضہ کشمیرکے صوبہ لداخ میںچین کے سامنے ٖڈھیرہوگیااوراس نے صوبہ لداخ کے کئی علاقوں پرچین کاحق تسلیم کر کے چین کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے ۔ چین کے ساتھ بھارت کے خجالت آمیزمذاکرات کے بعدجو سمجھوتہ طے پایا اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات پوری طرح سے الم نشرح ہوجاتی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیرکے صوبہ لداخ میں پسپائی اختیار کرکے اس خطے میں 60 کلو میٹر کا علاقہ چین کو دے دیا ۔ مشرقی لداخ کی بات کریں تو پینگیانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فنگر 3سے 8تک کا علاقہ بفر زون میں تبدیل ہوچکا ہے حالانکہ اس سے پہلے مقبوضہ لداخ کے اس علاقے میں بھارتی فوج پٹرولنگ کرتی رہی ہے اب بھارتی فوج اس علاقے میں نہیں جا سکے گی۔ چین نے اس پرپابندی عائدکردی کہ اس کی فوج آئندہ اس علاقے میں پٹرولنگ نہیں کر سکتی۔ چین کی اس مضبوط شرط کے ساتھ چین نے یہ طے کرلیاکہ اس کی فوج بھی اس علاقے میں نہیں آئے گی۔ یعنی آسان تشریح اورصاف الفاظ میں بھارت یہاں غیرقانونی اور ناجائز طور پر اپنا قابض تھا اور علاقہ چھوڑ کاکلی طورپرپیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے مقبوضہ لداخ میں جن 4 اہم علاقوں پر قبضہ کیا تھا جن میں گلوان وادی پی پی 14جہاں 2020ء اگست میں تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے جبکہ چین کی ایک خبرکے مطابق اس جھڑپ میں چین کے بھی 4 فوجی ہلاک ہو ئے تھے۔ اس کے علاوہ پی پی 17پھر ہارٹ سپرنگ گوگرا اور پھر دیپسانگ کا میدانی علاقہ جو شمال میں دولت بیگ اولڑی کے قریب واقع ہے معاہدے کے تحت بھارت ان تمام علاقوں سے دستبردار ہوگیا ہے یہ مجموعی طور پر 60کلو میٹر کا علاقہ ہے جس پر بھارت کبھی بھی( claim) نہیں کرے گا یہ وہ پسپائی اور خفت ہے جو مودی حکومت عملی طور پر اختیار کرچکی ہے ۔ 20 جنوری2021ء بروزہفتہ بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچیول کنٹرول پر کشید گی کے خاتمے کے لیے فوجی سطح پر دسویں دور کی بات چیت شروع ہوئی۔ یہ بات چیت چینی سرحد کے اندر مولڈو سرحد پر ہو رہی ہے۔ بھارت کی جانب سے اس بات چیت کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل پی جی کے مینن کر رہے ہیں جبکہ میجر جنرل لیو لن چینی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ مقبوضہ جموںوکشمیرکے خطہ لداخ میں2020ء مئی میں چین کے درآنے اورکافی علاقہ اپنے کنٹرول میں لئے جانے سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع کی وجہ سے حالات کافی کشیدہ رہے ہیں، بھارتی فوج نے چینی فوج کے مقابلے میں یہاں ہزیمت اٹھائی جبکہ بھارت چین کے سامنے بھیگی بلی بن کردست بست مذاکرات کی التجائیں کرتارہا تاکہ کشیدگی کم کی جا سکے ۔ چین نے بڑے صبر اورتحمل مزاجی کے ساتھ بڑے دنوں کے بعد بالآخر بھارتی کی منت وسماجت پرکان دھراے اوراپنی شرائط منواکراس نے بھارت سے ایک تصفیہ نامہ بھارت کا ’’شکست نامہ‘‘ لکھوایا۔ چین کی بھارت کے ساتھ جو بات چیت ہو رہی ہے اس بات چیت میں مشرقی لداخ کے گورگا اور ڈیپسنگ علاقوں پر توجہ مرکوز ہے جہاں گزشتہ کئی ماہ سے چین کی فوجیں بڑی تمکنت اوربڑی بے خوفی کے ساتھ سینہ تان کر کھڑی تھی۔ بھارت کے کئی دفاعی ماہرین کہتے رہے ہیں کہ ڈیپسنگ کے میدانی علاقے میں تقریبا 90 کلو میٹر اندر تک چینی فوجیں آچکی ہیں۔ پینگانگ جھیل کے جن علاقوں سے فوجوں کو پیچھے ہٹانے کا سمجھوتہ طے پایا تھا اس کی پابندی کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی فوجوں کے پیچھے ہٹنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر تعمیر بنکروں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور فوجی ساز و سامان کو بھی ہٹا لیا گیا ہے۔ مقبوضہ لداخ میں چین کے درآنے سے صورتحال بھارت کیلئے بہت بڑادرد سر بنا رہا اور بھارت کی اپوزیشن جماعتیں مودی پراس حوالے سے برستی رہیں۔ بدترین صورتحال اوراپنی خفت مٹانے کے لئے رواں ماہ کے اوائل میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے اس سمجھوتے کی تفصیلات ایوان کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے صرف پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فوجوں کو پیچھے ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے جبکہ دیگر متنازعہ علاقوں سے متعلق فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور وہاں اب بھی صورت حال جوں کی توں برقرار رہے گی۔ راج ناتھ سنگھ کاکہنا تھا کہ دیگر علاقوں میں بھی کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ بھارت اور چین میں شمالی مشرقی علاقے سکم سے لیکر مشرقی لداخ تک تقریبا تین ہزار کلو میٹر کی سرحد مشترک ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچول کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازعہ ہے۔ ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں کے درمیان گزشتہ تقریبا آٹھ ماہ سے مشرقی لداخ میں کشیدگی کا ماحول رہا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا مئی 2020ء میں ہوئی تھی اور جون 2020ء کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے تقریبا نو ادوار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چینی فوج نے پچھلے سال بھارتی افواج کے ساتھ سرحد پر مختلف جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے اپنی فوجیوں کی تفصیلات جاری کیں۔ اس کے مطابق ان جھڑپوں میں اس کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بیجنگ نے اپنے جانی نقصان کو عوامی سطح پر پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے۔ ایک چینی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہلاک شدہ چار فوجیوں کے ناموں کو ریاست پر قربان ہونیوالوں کی فہرست میں ڈالا دیا گیا ہے۔