ایک بات تو طے ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان لداخ اور سکم کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی حالیہ کشیدگی مزید بڑھتی دکھائی نہیں دے رہی۔ چینی اژدھے نے بھارتی ہاتھی کو اپنا جو جلوہ دکھانا تھا، وہ دکھا دیا۔ گو کہ نئی دہلی نے اپنے نقصان کے بارے میں دنیا کو سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا، لیکن بھارتی میڈیا کے مطابق چین کی پیپلز لیبرریشن آرمی کم از کم دو مقامات پر متنازعہ علاقے میں کئی کلومیٹر آگے بڑھ کر موچہ بند ہو گئی ہے۔ دریائے ’’گلوان‘‘کے پاس پی ایل اے کا تین سے چار کلومیٹر آگے بڑھنے اور بلند مقامات پر مورچہ بندی کا مطلب ہے کہ بھارت یہاں کم از کم 15 سے 20 مربع کلومیٹر علاقے سے محروم ہوا، جبکہ ’’پین گونگ‘‘جھیل کے پاس، چینی فوج یکدم آٹھ سے دس کلومیٹر آگے بڑھی ہے، یعنی کہ ادھر بھارتی فوج اپنے ہاتھوں سے 35 سے 40 مربع کلومیٹر کا علاقہ گنوا بیٹھی ہے۔ چینی فوجی کارروائی اس متنازعہ خطے میں بھارت کی جانب سے نئی سڑکوں اور مورچوں کی تعمیر کے جواب میں کی گئی جو یقنناً وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو انتہاپسند حکومت کے لیے بڑا جھٹکا ہے۔ لیکن کیا ردعمل کے طور پر بھارت چین کے خلاف فوجی طاقت استعمال کریگا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ بھارتی سورمائوں کو اندازہ ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ دوسری طرف خود چین بھی فوری فوجی مقاصد کے حصول کے بعد کشیدگی نہیں بڑھانا چاہے گا جو اس کی جنگ اور تصادم سے گریز کی آزمائی ہوئی پالیسی کا تسلسل ہے۔ لداخ اور سکم پر کشیدگی کم کرنے کے لیے بیجنگ نے از خود سفارت کاری میں پہل دکھائی اور نئی دہلی میں تعینات اپنے سفیر اور وزارت خارجہ کے ترجمان کے ذریعے صلح آمیز بیانات جاری کیے جن میں کہا گیا کہ چین اور بھارت کو ایک دوسرے سے خطرہ نہیں اور وہ معاملات کو پرامن طریقے سے حل کرسکتے ہیں۔ چین کی طرف سے بھارت کے ساتھ صلح آمیز رویہ باعث حیرت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کی ہوشربا ترقی کا ایک بڑا راز یہ بھی ہے کہ بیجنگ کسی بھی قسم کی مہم جوئی اور دیگر ممالک سے تضادات بڑھانے کی حکمت عملی پر یقین نہیں رکھتا۔ چین کی فوجی اور معاشی طاقت کا اظہار براہ راست نہیں بلکہ بلاواسطہ اس کی پختہ اور دانشمندانہ سفارت کاری سے ہوتا ہے۔ خصوصاً جب امریکہ چین کے ساتھ تنائواور کشیدگی بڑھانے پر تلا بیٹھا ہو، تو ایسے میں چین اپنے پڑوس میں کسی بھی قسم کا محاذ کھولنے سے گریز کریگا۔ چین کے بھارت کے ساتھ بڑے معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ 2019ء میں بھارت کے لیے چینی برآمدات 75 بلین ڈالر کی رہیں، جبکہ درآمدات تقریباً 17 بلین ڈالر۔ یعنی تجارات کا توازن بھرپور طریقے سے چین کے حق میں ہے۔ چین کی سو سے زیادہ کمپنیاں جو زیادہ تر سرکاری ہیں یا تو وہ بھارت میں دفاتر قائم کر چکی ہیں یا وہاں ان کے بڑے کاروباری مفادات ہیں۔ اس کی ایک مثال موبائل فون کی وسیع بھارتی مارکیٹ جس کے 60 فیصد سے زیادہ حصے پر چینی کمپنیوں کا غلبہ ہے۔ان حالات میں چین اور بھارت دنوں ہی کشیدگی کم کرنے کے لیے خاموش سفارت کاری پر زیادہ بھروسہ کریں گے، لیکن اندرون خانہ ان کے درمیان عدم اعتماد اور محاذآرائی کی فضا برقرار رہے گی۔ بھارت کی امریکہ بہادر سے بڑھتی قربتوں کی ایک بنیادی وجہ چین ہے اور حالیہ کشیدگی کے بعد نئی دہلی کی واشنگٹن سے قربتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسی تناظر میں امریکہ کی ’’انڈو پیسیفک‘‘ حکمت عملی -- جس کے تحت سرمایہ دارنہ جمہوریت پر مشتمل خطے کے ممالک کا چین مخالف اتحاد تشکیل دیا جارہا ہے ،میں بھارت کو کلیدی حیثیت سے نوازنے کا واشنگٹن میں اعلان ہوچکا ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ بھارت کو کم از کم دکھاوے کی حد تک ہی سہی چین کے مد مقابل لا کر کھڑا کردیا جائے۔ آنے والے دنوں میں اس نئی سرد جنگ میں مزید تیزی آئے گی۔ لیکن اگر مستقبل قریب کی بات کی جائے، تو لداخ اور سکم میں چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی قیادت کے سامنے یہ بڑا سوال ہے کہ وہ عوام کی نظروں میں کیسے ساکھ بحال کرے؟ اگر چین کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی بڑھانے کا سوال خارج از امکان ہے، تو پھر یقینا بھارتی ’’نیتا‘‘چاہیں گے کہ بیجنگ پر آنے والا غصہ کہیں اور اتار یں۔ اس کا مطلب ہے پاکستان، جس کے ساتھ بھارت کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں، وہ اولین نشانے پر ہوگا۔ فروری 2019ء میں بھارت بالاکوٹ کے ویران مقام پر بمباری کرنے کی جسارت کرچکا ہے جس کا اگلے ہی دن پاکستان کی طرف سے اسے دندان شکن جواب بھی مل گیا۔ لیکن بھارت نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے ایک سرخ لکیر عبور کر لی ہے جس پر عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی بھارتی قیادت کے لیے حوصلہ افزا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مقاصد کے حصول، یعنی کہ وہاں جاری تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے بھارت پاکستان کو مسلسل دبائومیں رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور دکھاوے کی حد تک بار بار محدود سے لے کر بڑی جنگ کے اشارے دے رہا ہے۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے خلاف غیرروایتی عملی اقدامات کے جواب میں ہماری حکومت روایتی سفارت کاری پر ڈٹی ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے خلاف ٹوئٹرپر مورچہ لگا رکھا ہے جس کے ذریعے وقتاًفوقتاً وہ دنیا کی توجہ جہاں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر دلوانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، وہیں وہ خدشے کا بھی اظہار کرتے رہتے ہیں کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر سے توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردی کو بہانہ بنا کر پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ بھی تواتر کے ساتھ انتہا پسند ہندوتوا سوچ اور بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسییوں کو علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی موقف دینا سن بھی رہی ہے ؟ کیا ٹوئٹر پر لگایا گیا مورچہ اور بیان بازی، بھارتی جارحانہ عزائم کے مقابلے میں کوئی حکمت عملی ہے بھی کہ نہیں؟ فی الوقت، مسئلہ کشمیر پر فیصلہ کن پہل کاری کا سہرا بھارت کے سر جاتا ہے۔ پاکستان کی طرف اب تک جو ردعمل سامنے آیا بھی ہے، وہ انتہائی کمزور اور ناکافی ہے جس کا بھارت کی صحت پر نہ کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ کشمیریوں کی اشک شوئی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے، پاکستان کو جنگی بنیادوں پر اپنی کشمیر اور بھارت پر پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا، اس اداراک کے ساتھ کے دنیا کبھی بے عمل اور کمزور کی التجائوں پر کان نہیں دھرتی۔ کشمیر اگر واقعی ہمارا مسئلہ ہے، تو اس کے لیے ہمیں دیگر ممالک کے بجائے اپنے آپ پر بھروسہ کرنا ہوگا اور بھارت سے اس ہی کی زبان میں بات کرنا ہوگی۔ بھارت اور دنیا کو یہ جتلانا ضروری ہے کہ پاکستان کشمیر کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اور جائے گا۔ اس معاملے پر حکمرانوں کی کمزوری کو نہ پاکستانی عوام معاف کریں گے اور نہ تاریخ۔