یونانی شاعر اگاتھیون نے کہا تھا ’’ماضی کو منسوخ کرنا تو دیوتائوں کے بھی بس میں نہیں ‘‘انسان کے گناہوں کو معاف کیا جا سکتا ہے مٹایا نہیں جا سکتا۔اس لئے تو غالب یاد ماضی کو عذاب کہہ کر خدا سے حافظہ چھین لینے کی دعا کرتا ہے۔ خدا اگر یاد ماضی کو سلب بھی کر لے تب بھی یہ دوسروں کے حافظے میں محفوظ رہتی ہے گزشتہ دنوں برطانوی نشریاتی ادارے کے انٹرویو کے دوران پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور برطانوی صحافی سٹیفن سیکر نے اپنے پروگرام میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ کو ان کا ماضی یاد دلا کر پسینے چھڑوا دیے۔منیر نیازی نے شاید ایسے ہی موقع کے لئے کہا ہے کہ: چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہرے کے نظر ہے آئنہ بردار آؤ سچ بولیں سچ تو یہی ہے کہ اسحاق ڈار جو کبھی پاکستان کے سیاہ سفید کے مالک اور معاشی جادوگر کہلوانے پر فخر محسوس کیا کرتے تھے برطانوی صحافی ان کو مفرور‘ مجرم چور کے القابات سے پکار کر ماضی کے آئینہ سے ان کے چہرے کے داغ دکھلاتا رہا اور موصوف چہرے سے داغ تو کیا پسینہ پوجنے کی بھی ہمت نہ کر سکے۔ اسحاق ڈار اور مسلم لیگ قرض کی مئے پلا کر جس فاقہ مستی کے رنگ لانے کی قوم کو یقین دلاتے رہے جب اقتدار کا نشہ اترا تو پتہ چلا کہ ترقی کے اس خمار کی قیمت مستقبل میں قوم کو مہنگے قرضوں کے سود کی ادائیگی کی صورت میں چکانی ہو گی۔ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ فیصد شرح سود پر قرض لیا جاتا ہے مگر ہمارے معاشی جادوگر نے 8فیصد پر 500ملین یورو قرض لے کر ڈالر کو 113سے 98 روپے پر تو لے آئے مگر قوم کو اس تماشے کی قیمت 33ارب روپے کے اضافی سود کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ پاکستان کی ترقی کے نام پر چار برسوں میں سات ارب ڈالر قرض لیے کر بیرون ممالک منی لاڈرنگ کی گئی۔ انٹرویو میں اسحاق ڈار سے جب پوچھا کہ آپ پر پاکستان کا خزانہ چوری کر کے اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے کا الزام ہے تو بڑی معصومیت سے جواب دیا۔ میرا تو پاکستان میں ایک ہی گھر تھا وہ بھی حکومت کے قبضے میں ہے، میرے بیٹے خود مختار ہیں ان کا بھی دبئی میں صرف ایک ولاہے۔ سیاست کی پیشانی پر محراب اور جھوٹ کے بارے میں ہی شاعر نے کہا ہے: سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا پاکستانی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اس بار چہرے بھی مل رہے ہیں اور درپن بھی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کی جائیداد نیلام کرنے کے متعلق نیب درخواست کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے صوبائی حکومت سے سابق وزیر خزانہ کی جائیدادیں حکومتی تحویل میں لے کر نیلام کرنے کا کہا تھا توان اثاثوں کی تفصیل بھی موجود تھی جس کے مطابق ماڈل ٹائون کے علاوہ ان کا گلبرگ میں مکان ،الفلاح ہائوسنگ سوسائٹی میں ان کی بیوی اور بیٹے کے 3پلاٹ اسلام آباد کے پارلیمان انکلیو میں دو کنال کاپلاٹ سمیت 13 جائیدادوں کا ذکر ہے۔ یہ تو پاکستان میں جائیدادیں ہیں. دبئی سمیت دنیا بھر میں ان کے اثاثوں کا اندازہ تو ان کے 2000ء میں اعترافی بیان سے لگایا جا سکتا ہے جب موصوف جیل میں بھی ایک جنرل کو پاکستان کی معیشت کو چاند پر لے جانے کے دعوے کیا کرتے تھے انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے حدیبیہ پیپر ملز کے ذریعے نواز شریف کے کہنے پر 14.86ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی ۔یہی نہیں جب 2013ء میں اقتدار میں آئے تو خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے 83کروڑ روپے دبئی کے شاہی خاندان کی طرف سے معاوضے کے طور پر ملنے کا جو دعویٰ کیا اس رقم کی بنک ٹرانزیکشن یا رسید بھی عدالت میں پیش نہ کر سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موصوف پاکستانی خزانہ سے کھلواڑ کر رہے تھے تو کیا اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اس کھیل سے بے خبر تھے اس کا جواب بھی اسحاق ڈار کے اس دعوے سے مل جاتا ہے جس میں انہوں نے فخریہ انداز میں نواز شریف فیملی پر اپنے احسانات گنوائے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 1992ء میں جب نواز شریف وزیر اعظم تھے اس وقت ان کی مضاربہ کمپنی نے میاں نواز شریف فیملی کو کاروبار کے لئے تقریباً 100ملین کاروبار کے لئے قرض دیا تھا یہ 100ملین کی قرض کی صورت میں رشوت ہی تھی جس کے ذریعے موصوف نے پاکستان کے خزانے کی چابی حاصل کی اور ترقی کے سراب دکھا کر پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اب برطانوی صحافی نے ان کو ماضی یاد دلاتے ہوئے پاکستان میں عدالتوں کا سامنا کرنے کا کہا تو موصوف نے نہ صرف پاکستان کے نظام عدل پر سوال اٹھا دیے بلکہ پاکستان کے واحد منظم ادارے فوج کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ اسحاق ڈار کا پاکستان کی فوج کے بارے میں کہنا کہ پوری فوج نہیں بلکہ فوج کے کچھ کردار سیاست میں مداخلت کرتے ہیں فوج میں تقسیم پیدا کرنے کی نواز شریف کی سازش کا بھی حصہ ہے۔ آنس معین نے کہا ہے: شامل پس پردہ بھی ہیں کھیل میں کچھ لوگ بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور… سابق وزیر خزانہ کی فوج اور عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کے پیچھے ایجنڈا کس کا ہے یہ کوئی راز ہے نہ پاکستان کو غیر مستحکم کر کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوششیں کوئی راز۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی محبت میں مرے جانے والوں کا ماضی بار بار ان کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اسے سیاست کا ستم ہی کہیے یا ہٹ دھرمی کہ آج چور سینہ تان کر کوتوال کوڈانٹ اور پاکستانیوں سے محبت کے دعوے کر رہے ہیں رسا چغتائی نے کیا خوب کہا ہے: عشق میں بھی سیاستیں نکلیں قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا