مہنگائی اور اس پر حزب اختلاف کی حکومت ہٹا و مہم کم تھے کہ کورونا کی واپسی کا بھی ذکر ہونے لگ گیا ہے۔ یہ مرض مکمل طور پر ٹلا نہیں تھا کہ پلٹ کر حملہ کرنے لگا ہے۔ آگاہی مہم میں اور شدت آنے کا امکان ہے۔ حفظان صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کے لیے جہاں بار بار صابن سے ہاتھ دھونے کی تلقین ہے وہیں پر سماجی فاصلہ رکھنے پر بھی زورہے۔ کورونا متعدی مرض ہے، انسان سے انسان تک پہنچتا ہے، احتیاط بنتی ہے۔ کورونا سے کے بارے میں کچھ حقائق کافی دلچسپ ہیں۔زیادہ تر اموات ان لوگوں کی ہوئی ہیں جن میں قوت مدافعت کمزور تھی، وائرس نے حملہ کیا تو جانبر نہ ہوسکے۔ اور یہ بھی کہ کورونا سے مرنے والے دوسرے جان لیوا امراض (کینسر، تپ دق، کالایرقان وغیرہ) کا بھی شکار تھے۔ یوں معاملہ قوت مدافعت پر جا پہنچا ہے، مدافعت موجود نہ ہوتو انسان وائرس اٹھائے پھرتا ہے اورمیل جول کے دوران دوسرے انسانوں تک بھی پہنچا دیتا ہے۔ اسی طریقے سے ہی قاتل وائرس دنیا بھر میں پھیلا ہے۔ میڈیکل سائنس کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ۔ سوائے اس نصیحت کے کہ میل جول کم کیا جائے۔ ریاستوں کے پاس لاک ڈاون کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن دوسری طرف کام، کاروبار اور تجارت نہ ہو تو سرکاری محصولات کہاں سے آئیں گے، ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہوجائیں گے، ملازمین کو تنخواہ تک نہیں مل پائے گی۔معاملہ طول پکڑے تو بات سمارٹ لاک ڈاون سے مکمل لاک ڈاؤن تک چلی جائیگی۔ لوگوں کو گھروں میں قید رکھنا مشکل ہوجائیگا۔ بھوک اقدار، روایا ت اور قاعدے کیا قانون تک بھلادیتی ہے۔ معاملے کو روایتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش بدامنی اور فساد کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ریاست کی سلامتی تک خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ حکومت کو اب تک اپنی مجبوریوں کا کافی حد تک پتہ لگ گیا ہے، خرابی قوانین میں نہیں بلکہ اس مشینری میں ہے جو اس کا اطلاق کر تی ہے۔ غذائی اجناس کی پیداوار ، اسکے حجم اور منافع کا تعین مخصوص لابی کرتی ہے۔ اس پیدواری عمل میں شریک مزدوروں کو اجرت کتنی دینی ہے ، کتنی نہیں دینی ، کھیتوں اور ملوں میں کام کے دوران انہیں حفاظتی لباس ملنا ہے یا نہیں، صنعتی ادارے ماحولیات کی پرواہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ، حکومت کسی کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتی۔ کونسی حکومت گرنی ہے کونسی اقتدار میں رہنی ہے ، وزرا اعظم تک کو ان کے بوریا بستر لپیٹے جانے تک کوئی علم نہیں ہوتا۔ ایسا آج سے نہیں ہورہا ، تب سے ہورہا ہے جب سے ملک بنا ہے۔ عرف عام میں اس صورتحال کو انتشار کہا جاتا ہے، جو معلومات کے دور میں، چھپائے نہیں چھپ رہا۔ ساٹھ فیصد عوام کو دال روٹی کے لالے پڑنے تک ایک طویل عرصہ لگا ہے۔ عرصہ بیت گیا ہے بیراجوں اور ڈیموں کو بنے، دریاوں کو اپنے دامن میں سمٹ کر بہتے ، بیٹ، بیلے اور بار کو سوکھے۔ مویشی، دالیں اور تازہ مچھلی کی شہروں کو سستے داموں فراہمی کو ہوئے۔ صحراوں کو آباد کرکے گندم اور گنا کاشت ہوگا تو چراگاہوں کا نقصان توہوگا ہی۔ دریا ئے سندھ تک کا ڈیلٹا اجڑ جائے تو غذائی تحفظ کی امید فضول ہے۔ قرضہ کی عمارت پر کھڑا معاشی نظام ڈیم بناتا ہے، سڑکیں بناتا ہے اور عالیشان بلڈنگز کھڑی کرتاہے، انیسویں صدی کا تعزیراتی قانون لوگوں کو پولیس کی پھینٹی لگواتا ہے، بینک زرعی اجناس کے ساہوکاروں کو قرضے دیتے ہیں، اور یہ سارا نظام مل کرچند سو چوروں کی اس ملک پر حکومت کو یقینی بناتا ہے۔ پہلے کی بات اور تھی، لیکن اب یہ نظام معلومات کے دور میں اپنی ساکھ کھو چکا تھا ، کوروناکی وبا نے اسے جامد کردیا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے وقت موقع تھا کہ ریاست کی سمت تبدیلی کردی جاتی، فرد اور ریاست کے درمیان عزت اور وقار کا رشتہ قائم کردیا جاتا۔ معیشت کو ماحولیات سے ہم آہنگ کرنے کی عالمی حکمت عملی پر کان تک نہ دھرا گیا۔مقامی حکومتیں حکمرانوں اور عوام میں رابطے کا ذریعہ ہوسکتی تھیں ، بیماری اور آفت سے نمٹنے کا ایک اہم ہتھیا ر ثابت ہوسکتی تھیں لیکن ان کا ٹینٹوا ہی دبا دیا گیا، شہروں کو سرسبز کرنے کا نسخہ پچھلے دس سالوں سے فیصلہ سازوں کی میز پڑا ہے۔ اس ملک کے باسیوں کو اندھیر نگری ، چوپٹ راج ہی ملا۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں اور چوروں کی سینہ زوری کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ دریاوں کے پانیوں کی ہوئی چوری کا تعلق تازہ مچھلی، دالوں اور گھی کی کمیابی سے ہے۔ ملکی خزانے کی چوری کی وجہ سے تعلیم اور صحت کا ڈھانچہ تباہ ہوا ہے اور لوگوں کو صاف پانی تک میسر نہیں ہوسکا۔ چور اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی چوری کی روک تھام کی باتیں کرے تو ا کٹھے ہوجاتے ہیں اور ملکی سلامتی کو داو پر لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ کورونا کی ملک میں مستقل طور پر روکنے کے لیے چوری کا مکمل طور پر سدباب کیا جانا ضروری ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے چور تھے لیکن اتنے منہ زور نہیں تھے کہ سرکاری خزانہ ہی ڈکار جائیں۔ انگریزوں کے دور میں چوری ہوتی تھی اور چور بھی کافی ’چکنے ‘ ہوتے تھے لیکن جلد ہی صاحب بہادر کو ایک مقامی نسخہ مل گیا تھا کہ چکنے چور ہاتھ نہ آئیں تو انکی 'اماں جی 'سے پوچھ تاچھ کر لو جو اپنے بچے پولیس کے ہاتھ میں تو نہیں دے گی البتہ مسروقہ مال ضرور واپس مل جائے گا۔ اب یہ نسخہ اس لیے ٹھکرا دیا جائیگا کہ جمہوری روایات کی نفی ہوتی ہے ۔ کرے کوئی بھرے کوئی کہاں کا انصاف ہے؟ ایک تو وہ جمہوریت جس کے ثمرات پچھلے دس برسوں سے عوام تک نہیں پہنچ پارہے ، اوپر سے وہ چوری کہ عوام کو صاف پانی اور متوازن غذا مہیا کرنے کے وسائل تک نہیں بچے، اس مقامی نسخے کو پزیرائی مل جائے تو اس میں جمہور اور جمہوریت دونوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔