ژوب کی زرخیزمٹی نے ہر دور میں رجالِ کارپیداکیے ہیں ۔انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہدکی بات چھڑ جائے تو بھی آپ کو اس خطے ہی کے سپوتوں کی مزاحمتی داستانیں زیادہ سننے کوملیں گی ۔اہل نظراورسیاسی بصیرت رکھنے والوں کا تذکرہ ہوجائے توبھی ژوب ہرزمانے میں عبقری شخصیات کا نمائندہ علاقہ رہاہے۔ چونکہ یہاں با ت ادب کی کرنی ہے یوں اس مختصر مضمون میں صرف یہاں کے ادب اور مجاورانِ ادب ہی کو موضوع بناتے ہیںاورسچی بات یہ ہے کہ ژوب اور ادب کابھی ہرزمانے میں چھولی دامن کا ساتھ رہاہے ۔پشتو زبان کے مشہور تذکرے ’’تذکرۃ الاولیاء ‘‘ میں سلیمان ماکو نے یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ-400 300 ہجری میں ژوب ہی کے مشہور پہاڑ’’ قیسا غر‘‘ کا دامن پشتونوں کے جدامجد قیس عبدالرشید کے ولدِ صالح اور صوفی شاعربیٹ نیکہ کا مسکن رہاتھا۔اسی تذکرے ہی کے مطابق شیخ اسماعیل سڑبنی (فرزند بیٹ نیکہ) نے بھی اسی تاریخی پہاڑ کے وسیع دامن میں اپنی زندگی بسر کی اور پھریہیں پہ انتقال اور آسودہ خاک ہوئے ۔ اسی طرح شیخ تیمن ،دولت لوانی1060) )،ملادوست محمدکاکڑ(900 ھ)، ملاپیرمحمد کاکڑ (1120-1186 ھ)اور ملاجان محمدکاکڑجیسے بزرگ،صوفیاء اور صاحب دیوان شعراء کاتعلق بھی پرانے ژوب کے وسیع وعریض علاقے سے تھا۔ بیسویں صدی عیسوی کی بات کریں تو ہمارے سامنے سائیں کمال الدین شیرانی جیسی قدآور شخصیات آتے ہیں جنہوں نے نہ صرف شعرکہنے اورلکھنے پر اکتفاء کیا تھابلکہ پشتو زبان کے متروک لغات، ضر ب الامثال ،پشتو رسم الخط ، پشتوزبان کی فولکلورک شاعری ،صحافت اوراپنے دور کے المناک واقعات پر بھی کتابیں لکھیں۔مرحوم سائیں کمال خان شیرانی کے خدمات کاتوکیاکہنا ،موصوف اس علاقے کا وہ نمائندچہرہ تھا جنہوں نے نہ صرف چھ معیاری کتابوں (جن میں ناول اورسقراط کا مقدمہ بھی شامل تھا)کاپشتو ترجمہ کیا بلکہ پوری زندگی لوگوں کے فکری استادبھی رہے۔یادرہے کہ کوئٹہ سے پشتوکے نام سے ایک ماہنامے کا اجراء اور ’’لٹ خانہ ‘‘ کے نام سے مشہور سیاسی وعلمی تحریک کاقیام بھی سائیں کمال خان ہی کی کوششوں کانتیجہ تھا ۔ اسی طرح مرحوم شیخ صاحب خان مندوخیل ہویا پھرحافظ میرک افکاری اورمرحوم عبدالعلی غورغشتی ۔مولوی نصراللہ خوستی ہویا پھر مولوی عمادالدین قریشی ، عبدالغفور کیسوی اور حافظ حنفی وغیرہ سب بیسویں صدی کے وہ نمایاںادبی نام تھے جنہوں نے یہاں کے پشتو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ رواں صدی توہے ہی علم ودانش کی صدی، جس کے ابتدائی اٹھارہ برس کامختصرعرصہ یہاںکے ادب کیلئے نہایت سازگار رہا۔اس عرصے میں نہ صرف یہاں کی نوجوان نسل کو ادبی ذوق کا شدت سے چسکا لگا بلکہ ایک وسیع پیمانے پر نوجوانوں نے کتابی صورت میں اپنی تخلیقات بھی سامنے لائیں۔اس نئے طائفے کے ادبی کام کو بڑی حد تک اگر معیاری بھی کہہ لوں تومیرے خیال میں یہ مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ یہاںکے شعراء اور تخلیق کاروں کو ادبی کاوشوں پر وقتاً فوقتاً بلوچستان حکومت اورخیبرپختونخوا کی ادبی تنظیموں کی طرف سے ادبی ایوارڈز بھی ملتے رہے ہیں۔ اس نئی نسل کے تخلیق کاروں نے ایک اور کمال یہ بھی کردیا کہ بہت سے نوجوانوں نے شعرلکھنے کیساتھ ساتھ نثر لکھنے کوبھی ترجیح دی ۔ مختلف زبانوں سے ترجمے ،جریدوں میں ادبی تبصرے، ناول ،افسانے اور سفرنامے قلمبند کرکے پشتو ادبیات میں بیش بہا اضافہ کیاہے ۔حال ہی میں یہاں کے ممتاز شاعر اور افسانہ نگار جناب وزیرخان بہار ناصَر کی بیک وقت دوکتابیں منظر عام پر آئی ہیںجن میں ایک شعری مجموعہ جبکہ دوسری کتاب کاتعلق فکشن سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہار ناصر نے اپنی پہلی کتاب ہی کے توسط سے بہت پہلے ادبی حلقوں میں باقاعدہ طور پر ایک سپیس بنائی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی شاعری کو جدت کاتڑکا لگانے کے ساتھ ساتھ اس میں انسانی اقدار ، معاشرتی رویوں اور اپنی قوم کو درپیش آلام کا نہایت باریک بینی کے ساتھ ذکرکیاہے۔ ہمارے اس حساس شاعر نے اپنے حالیہ مجموعے کیلئے نام بھی بڑاکمال کاانتخاب کیاہے ۔تیسری کتاب بھی ژو ب ہی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعرجناب رازق جار صافی کی شاعری کامجموعہ ہے جو ڈیڑھ دو سال پہلے طبع ہوکر مارکیٹ میں آئی ہے۔ مہنگائی اور مفلسی کے اس عالم میں تمام تر گھریلواخراجات کوبالائے طاق رکھ کر اپنی شاعری کو قارئین کیلئے پیش کرنایقیناًجارصافی کا پشتوادب کے ساتھ بے لاگ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ایک سوچارصفحات پر مشتمل اس شعری مجموعے کانام ’’ دروازہ پرانیزمہ؟ ‘‘ (دروازہ کھولوں؟) رکھاہے۔ بہت قلیل عرصے میںجارصافی نے نہ صرف اپنے آپ کو صاحب کتاب شاعرکے طور پر منوایا بلکہ نوجوان طبقے میں ان کی شاعری بڑی حدتک معیاری اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔جار صافی استحصالی نظام کامخالف اور مساوات پریقین رکھنے والا شاعر ہے ۔جہالت کے ساتھ ساتھ روایتی فرسودہ نظریات سے بھی ان کوچڑ ہے اور انصاف ،امن اور انسان دوستی جیسے اوصاف ِ حمیدہ رکھنے والے سماج پر یقین رکھتے ہیں ۔جاتے جاتے آخرمیں یہ اعتراف بھی کرلوں کہ ژوب شہر میں پبلک لائبریری کا قیام ایک مستحسن اور نافع اقدام ہے۔یہ لائبریری ہمارے دوست مفتی خیالی جان مندوخیل کی ذاتی کوششوں سے قائم ہوئی ہے جویہاںکے لوگوں میں علمی ذوق پیداکرنے کاایک بہترین ذریعہ ہے ۔ مفتی صاحب نے بہت مختصر وقت میں نہ صرف اس لائبریری کو باقاعدہ طورپر فعال بنا کراس میں سینکڑوں کتابوں کا ڈھیر لگادیاہے بلکہ خوشی کی بات یہ ہے کہ وہاںپر انہوں نے مختلف موضوعات پر مختلف زبانوںکی کتابیں رکھنے کااہتمام کیاہواہے ۔ آخر میں پشتوزبان کے ان تمام معززاحباب شعراء حضرات اور جناب مفتی خیالی جان کو ان کی قابل قدر خدمات اور مساعی پرصدق دل سے مبارکباد پیش کرتاہوں ۔