ڈاکٹر انور سجاد کی رُخصتی نے اداس کر دیا۔بالکل ایسے ہی جب روحی بانو ،حبیب اوران جیسے بہت سے فنکار اس دنیا سے اُس دنیا کی جانب رخصت ہوئے تھے۔ایسے ہی جب حسن طارق اپنے آخری دنوں میں اپنی پہلی بیوی کے ہاتھوں تیمار داری کے دوران ماضی کی محبتوں کے زخم مندمل کر رہے تھے۔مشہور فلم ساز سرور بھٹی نے سلمیٰ آغا اور ندیم کو لے کر ایک فلم بنائی۔نام تھا اس کا"بازارِحسن"۔اس فلم میں جب ایک فلم ڈائریکٹر عروج پر ہوتا ہے تو وہ ایک سٹار ایکٹرس سے شادی کر لیتا ہے ۔جب اس ڈائریکٹر کو زوال آتا ہے تو اس کی سٹار بیوی اُسے گھر سے نکال دیتی ہے۔اس فلم کے ہدایت کار جاوید فاضل مرحوم تھے۔فلم کامیاب رہی۔سرور بھٹی سے صحافیوں اور دوستوں نے پوچھا کہ یہ کہانی اور فلاں ٹاپ ایکٹرس کی ہے ناں؟بھٹی صاحب نے پان چبا کر مسکراتے ہوئے کہا "اے کہانی تے حسن طارق تے رانی دی اے"۔حسن طارق مرحوم نے عین عروج کے دنوں میں اپنی پہلی گھریلو اہلیہ کو چھوڑ کر فلم انڈسٹری کی ایک خوبصورت ایکٹرس رانی سے شادی کر لی۔رانی ماہر رقاصہ اور خوبرو ہونے کے باوجود باکس آفس پر کلک نہیں کر رہی تھی۔پھر حسن طارق اس کے گاڈ فادر بن گئے اور شوہر بھی۔رانی ایکٹرس سے سٹار بن گئی ۔پھر جب حسن طارق پر زوال آیا تو پورے کمال سے آیا۔اس زوال پررانی نے انہیں خیر آباد کہہ دیا اور ان کے آخری دن اپنی پہلی بیوی اور بیٹی کے ساتھ گزرے۔جب کوئی پروفیشنل اپنی فیلڈ میں بہت طاقتور اوربا اثر ہوتا ہے تو بعض خواتین کیریئر بنانے کیلئے کچھ بھی کر گزرتی ہیں۔اسی لیے شاید ایک استاد شاعر کہا کرتے تھے،محبتوں میں عجب ہے دلوںکو دھڑکا سا،نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے۔فنکار فلم کا ہو ۔۔۔ٹی وی کا۔۔۔ڈرامے کا یا افسانے کا،فنکار ہی ہوتا ہے۔آسانی سے دھوکا کھا جانے والا۔ کچھ کرائم غیر قانونی ہوتے ہیں،مگر کچھ سوشل کرائم ایسے ہوتے ہیں جن پر قانون کی کتابیں خاموش ہیں۔ایسے جرموں کا سوسائٹی ذکر تو کرتی ہے مگر مجرم کو سزا نہیں دیتی۔فلم سٹار ننھا نے خودکشی کیوں کی تھی؟نازلی سے کبھی کسی نے نہیں پوچھا۔مصطفیٰ زیدی کی تباہی میں شہنا زگل کا کتنا ہاتھ تھا؟وقت نے دستانے پہنے ہوئے ہیں۔وحید مراد کیوں اور کیسے مرا؟یہ سب جرم اسی معاشرے میں ہوتے ہیں،دنیائے جذبات و وفا میں۔ان کی کوئی فردِ جرم نہیں ہوتی۔کوئی تعزیرِ پاکستان بھی نہیں لگتی۔مگر ان جرموں کے نتیجے میں بڑا بڑا با صلاحیت فنکار جاں سے گزر جاتا ہے۔کوئے یار سے سوئے دار جا پہنچتا ہے۔مگر ستم یہ ہے کہ کوئی بھی کہیں بھی کسی پر بھی انگلی نہیں رکھ پاتا۔کسی کو الزام نہیں دیا جاتا۔اخبارات ،ٹی وی اورسوشل میڈیا بہت کچھ کہتا ہے مگر کچھ بھی نہیں ہوتا۔یاد آ رہے ہیں مصطفیٰ زیدی،عدیم ہاشمی،روحی بانو،اداکار حبیب،کامیڈین ننھا، حسن طارق اور دانش کا خزانہ ڈاکٹر انور سجاد۔وہ کیا تھا،وہ کون لوگ تھے جو ان سب کے دکھوں کا سبب بنے اور کس نے انہیں موت سے ہمکنار کر دیا۔ڈاکٹر انورسجاد کے کراچی شفٹ ہونے سے پہلے ان سے ایک مشترکہ دوست کے ہاں ملاقات ہوگئی۔کہنے لگے میں بحریہ ٹائون رہتا ہوں،آپ چکر لگائیں ناں۔ان کے ساتھ ان کی دوسری اہلیہ اورٹی وی سٹار زیب رحمان بھی تھیں۔ڈاکٹر صاحب اور میڈم زیب کو دیکھ کر مجھے اپنی ان سے پہلی ملاقات یاد آ گئی۔اس وقت میں ریڈیو میں نیا نیا پروگرام پروڈیوسر بنا تھا۔لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی صاحب نے میرا تعارف ایک ایکٹر اور ہیرو پروڈیوسر سے کروایا۔مدثر شریف کام تو ریڈیو میں کرتا تھا مگر اس کے خواب اسے بتاتے تھے کہ وہ گاڈ میڈ ہیرو ہے۔مدثر مجھ سے سینئر تھا مگر دوست بن گیا۔اسی کے ساتھ ریڈیو میں زیب رحمان سے پہلی ملاقات ہوئی۔راحت کاظمی اور زیب رحمان کا لانگ پلے"رگوں میں اندھیرا"ان دنوں پی ٹی وی سے آن ایئر ہوا تھا۔مجھے کافی دیر تک یقین ہی نہ آیا کہ میرے سامنے رگوں میں اندھیرا کی ہیروئن بیٹھی ہے۔پھر ڈاکٹر انور سجاد۔۔۔ نے زیب رحمان سے شادی کر لی،پسند کی شادی۔میں حسب وعدہ ڈاکٹر صاحب کے گھر گیا۔اس جوڑے سے جی بھر کے ڈھیروں موضوعات پر سیر حاصل گپ شپ ہوئی۔پھر یہ کراچی شفٹ ہو گئے اور رابطے کمزور ہوتے چلے گئے۔ ڈاکٹر انور سجاد سے ان کی تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش لے کر ایک دوست آسٹرالوجر نے خود ہی ان کا زائچہ بنایا اور بتایا کہ آپ کے زائچے میں ستارہ عطارد اپنی تمام تر توانائیوں اور تب و تاب کے ساتھ دمک رہا ہے۔عطارد دنیائے نجوم میںقوتِ ابلاغ کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ سیماب صفت ستارہ ہر وقت متحرک رہتا ہے۔آسٹرالوجر دوست نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو سوتے میں بھی نئے نئے آئیڈیاز کی زد میں رہتے ہیں۔یہ دنیا مادے کی بنی ہوئی ہے۔اس لیے ہر عہد ہی مادی اصولوں کا بنا ہوتا ہے۔شاید اسی لیے ہر عہد میں فنکار مس فٹ ہوتا ہے۔سیانا دنیا دار نہیں بن پاتا۔یہی وجہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی جذباتی فریبِ نظر کے ہاتھوں راستہ اور منزل کھو بیٹھتا ہے۔وہ فنکار فلم کا ہو،قلم کا ہوکے بُرش کا ۔وہ بس فنکار ہوتا ہے۔جو نہ تو بیورو کریٹ ہوتا ہے،نہ سیاست دان،نہ مذہبی راہنما،نہ ریئل اسٹیٹ ٹائیکون،نہ شوگرمافیا،نہ میڈیا کا زور،بس فنکار ہوتا ہے۔اگروہ روحی بانو ہو تو معاشرہ اسے پاگل قرار دے دیتا ہے۔اس کے بیٹے کو خون میں نہلا دیتا ہے۔اس کی ماں کو جلا دیتا ہے۔اس کی جائداد پر قبضہ کر لیتا ہے۔اگر یہ فنکار گُل جی ہوں تو وہ قتل بھی ہو جاتے ہیں اور کسی پر فردِ جرم بھی عائد نہیں ہوتی۔یہ وہی معاشرہ ہے جس میں مشہور دھمال کا خالق بازارِ حسن کے محلہ مراثیاں میں فاقوں کے ہاتھوں چل بستا ہے۔ماسٹر عبداللہ جیسے بڑے موسیقار کی اولاد تعفن زدہ کٹری میں بے روزگاری اور نشوں کے ہاتھوں تباہ ہو جاتی ہے۔دِل دِل پاکستان جیسے مِلی نغمے کا خالق نثار ناسک بیماری اور غربت کی گود میں سسکیاں بھرتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر انور سجاد اور زیب رحمان کراچی اس لیے شفٹ ہوئے کہ ایک میڈیا چینل نے انہیں شعبہ سکرپٹ میں ایک اچھا پیکج آفر کیا۔مگرجب وہ بیمار ہوئے تو سبھی ساتھ چھوڑ گئے،یہاں تک کہ میڈیا چینل نے تنخواہ دینی بھی بند کر دی۔رائے ونڈ روڈ پر ایک جدید سوسائٹی میں وہ بسترِ علالت پر اپنی پہلی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کبھی لیٹے رہتے اور کبھی سہارا لے کر بیٹھ جاتے ۔ڈاکٹر صاحب سوچتے رہتے ماضی کو،دوستوں کو،اپنوں کو،غیروں کو،وفائوں کو اور بے وفائیوں کو۔شاید وہ یہ کرب جھیل نہ پائے اور عید کے اگلے روز اس بے وفا شہر کو چھوڑ کر چل دیے،ہمیشہ کیلئے۔