ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم کی پشیمانی کو جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگ غزل یار جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو اگرچہ سیاست کا بازار گرم ہے اور اس گرم تنور میں آرام کے ساتھ نان لگائے اور پکائے جا سکتے ہیں۔ مگر ایک دلچسپ تذکرہ شعر کے ضمن میں ضرور ہے کہ مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ ہمارے ایک دوست نے اپنے کالم میں ایک منفرد اور انوکھا سا شعر درج کیا تو میرا دل چاہا کہ اس نویکلے شعر کا پس منظر اور پیش منظر اپنے قارئین کے سامنے رکھ دوں کہ خصوصی طور پر ادب کے قارئین حظ اٹھا سکیں۔ پہلے شعر درج کیے دیتے ہیں: نہ پکڑے ہے نہ چھوڑے زندگی ہے یہی اپنا نچوڑ زندگی ہے یہ شعر عبدالحمید عدم کے فرزند خالد بن عدم کا شعر ہے۔جب یہ کہا گیا تو پھر یہ ہم سب شاعروں کی زبان پر آباد۔ خاص طور پر شہزاد احمد صاحب یہ شعر مزے لے لے کر ہمیں سناتے اور کیبنٹ کے دبستان میں آنے والے شعرا عقل میں اس پرگرہیں لگا کر لطف اندوز ہوتے۔ خالد بن عدم نہایت بھلے مانس اور شرف النفس ہے بالکل بھی محسوس نہ کرتے۔ اصل میں اس شعر کی ترکیب عجیب و غریب ہونے کے باعث لطف دینی۔ وگرنہ یہ نچوڑنا تو بڑے بڑے شعرا نے بھی استعمال کیا ہے: تر دامنی پہ اے شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں سیاست میں تو آپ اکثر دیکھتے ہیں کہ اربوں روپے کی کرپشن پر شور شرابا تو پھر جب فیصلے آتے ہیں تو وہی ڈاکو اور چور فرشتوں کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں اور سب کچھ سیاسی انتقام کہہ کر صاف کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی نچوڑ زندگی‘ یہ نچوڑ اصل میں کسی شے کا ست‘اسسنس اور حاصل ہے۔ تب ایک اور لفظ شہزاد احمد صاحب ہی بولا کرتے تھے زبدۃالحکما یعنی حکما کا نچوڑ۔ مگر جو لیموں نچوڑنے میں مزہ ہے وہ تو سیاستدان ہی جانتے ہیں کہ وہ عوام کو کس طرح سے نچوڑتے ہیں۔ اب کے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ ہر طرف سے شکنجے کسے جا رہے ہیں کہ کوئی ہلنے بھی نہ پائے۔ یونہی بات سے بات نکلتی ہے کہ مجھے وہ کیکڑے دکھائی دے جاتے ہیں کہ بھارت میں کیکڑوں کو شکنجوں میں کس کر ان کا تیل نکالا جاتا ہے جو غالباً پرپل رنگ کا ہوتا ہے یا نیلا۔ کہتے ہیں وہ بہت مفید ہوتا ہے اسی طرح عوام کو کس کر جو حاصل کیا جاتا ہے وہ کون سا کم مفید ہے۔ ہمارے دوست کے کالم میں نثار اکبر آبادی کا ذکر آیا تو دل میں شگوفے پھوٹے۔ اصل میں ہم سب نے شب و روز اکٹھے گزارے ہیں۔وہی جو ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ ہر لمحے کے ساتھ کچھ لمحے جڑے ہوتے ہیں۔ ایک یاد یادوں کا پنڈوراکھول دیتی ہے۔ ہمارا یہ دوست نثار اکبر آبادی حد سے زیادہ معصوم شخص تھا نہایت پیارا سا۔ایک شعر اس کا ذہن میں آ رہا ہے: پھر کیوں ہے غریبوں کے گھروں میں یہ اندھیرا یہ چاند اگر سارے زمانے کے لئے ہے استاد شاعر تھا ،اساتذہ کی غلطیاں یعنی ظفر اقبال کی طرح نکالا کرتا تھا۔ ایک دن کہنے لگا یار یہ مومن کا شعر جتنا مرضی بڑا ہے کہ غالب نے اپنا دیوان اس کے بدلے میں دینے کو کہا تھا مگر اس میں سقم ہے کہ جہاں ہوتا ہے وہاں وزن ہوت کا آتا ہے۔ یعنی الف دبتا ہے: تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ہم نے کہا استاد جانے دیں شعر کے بڑے پن نے معمولی سے عیب کو دبا دیا ہے۔ ان سے بڑے مزے مزے کی باتیں ہوتیں۔ ایک روز چائینز لنچ ہوم میں اقبال زخمی کے رسالے لکھاری کی تقریب تھی تو نثار اکبر آبادی نے فی البدیہہ قطعہ کہہ دیا: چیز پیاری پڑھدے آں اساں لکھاری پڑھدے آں میں تے میرے گھر والی واری واری پڑھدے آں آپ کو اس پنجابی اردو پن نظر آئے گا کہ وہ اردو سپیکنگ تھے۔ ایسے ہی جیسے ہماری اردو میں بعض اوقات بے خیالی میں پنجابیت آ جاتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ایک نیا ذائقہ سامنے آ جاتا ہے۔ مجھے نہایت عمدہ بات یاد آئی کہ بعض اوقات یہ معذوری یا بے ہنری کام آ جاتی ہے۔ میں شاید یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مصطفی قریشی کو پنجابی نہیں آتی تھی سندھی کی آمیزش سے ان کی زبان کو پنجاب میں بے تحاشا پذیرائی ملی اسی طرح اداکارہ شبنم کو اردو میں مسئلہ تھا تو بنگالی لہجہ مزہ دے گیا اور تو اور چندر شیکھر بھارت کا سینیئر وزیر فالج گرنے کے باعث بنا تھا۔ بس قدرت جو چاہتی ہے ہو جاتا ہے۔ ان شہرت پانے والوں میں میرا کلاس فیلو سہیل وڑائچ بھی ہے۔ اس کو بھی لہجے نے ممتاز کیا۔ اب سیاست پہ مزید کیا لکھیں کہ نواز شریف کی واپسی کے لئے برطانیہ کو خط لکھا جا رہا ہے ایک زور دار حکومت سے سوس بینکس کو لکھنے کے لئے کہا گیا تھا اس میں افتخار چودھری قوم کے دو تین سال ضائع کر دیے ،خط کو قطری شہزادے کا بھی تھا۔ ایسے ایک شعر یاد آ گیا: ان خطوں کو کہیں دریا میں جلایا ہوتا اس طرح خود کو جلانے کی ضرورت کیا تھی اب حکومت کی ساری توانائی اور صلاحیت نواز شریف کو واپس لانے میں صرف ہو گی، بلی کو آپ نے کبھی دیکھا ہو گا کہ وہ اپنے شکار کو پکڑتی ہے تو بعض اوقات اس کے ساتھ کھیلتی ہے کبھی اسے چھوڑتی ہے اور کبھی پھر پکڑ لیتی ہے۔بلی کا شکار مگر اور شے ہے۔تجزیہ نگار بھی کہہ رہے ہیں کہ مریم چاہتی ہے کہ چچا خاموش رہے اور وہ بادشاہ بن جائے۔ کوئی بھی بادشاہ نہیں بنتا یہ ہم ہیں جو انہیں بناتے ہیں۔ بادشاہت آپ کے روپوں سے چھلکتی ہے کہ جو بادشاہ کی طرح حکومت چلائے۔ اسے آپ کیا کہیں گے وہ چاہے تو عوام کو جس کے مرضی سپرد کے جس کی چاہے تنخواہ روک لے۔ جس کی چاہے انکریمنٹ بند کر دے حکومت کرنے کیلئے بندے امپورٹ کرے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ بزرجمہر کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف نے ڈاکٹروں کو چکر دے دیا۔یہ آپ نواز شریف کو داد دے رہے ہیں یا ڈاکٹروں کی نااہلی بیان کر رہے ہیں ، کبھی کبھی تو یہ صورتحال میڈٹی پارٹی کی طرح لگتی ہے جس میں مختلف جانور عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں۔