کورونا وائرس وبا کی وجہ سے افغانستان جانے والے گیارہ ہزار سے زائد کنٹینروں کی پاکستان میں پھنسے ہونے کی اطلاعات تھی ۔ قومی اسمبلی نے اس معاملے کا نوٹس لیا ۔سپیکر اسد قیصر نے پاکستان ۔ افغانستان پارلیمانی فرینڈشپ گروپ کے تحت چار پارلیمانی ٹاسک فورسز تشکیل دیں تاکہ متعلقہ سٹیک ہولڈر زکے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکے ۔ٹاسک فورسز نے 20 سے زائد اجلاس منعقد کئے ۔ بندرگا ہوں اور کراسنگ پوائنٹس کے متعدد دورے کئے تاکہ درپیش مسائل کا حل نکا لا جائے ۔مختلف وزارتوں کے درمیان بھر پور رابطے کی وجہ سے اب سرحد پر ماہانہ 350 کنٹینر کلیئر کئے جارہے ہیں ۔پورٹ سے کراسنگ پوائنٹ تک کنٹینر صرف 3 دن میں کلیئر ہو رہا ہے جوکہ پہلے 28 دن اس عمل میں گزرتے تھے۔باہمی تجارت کے لئے غلام خان ، انگوراڈا اور خرلاچی کو بھی کھول دیا گیا ہے ۔ امید ہے کہ اس سے دوطرفہ تجارت میں کئی گناہ اضافہ ہوگا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت ٹرانزٹ ٹریڈ ، دوطرفہ اور غیر رسمی طریقے سے ہو رہی ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت پانچ ارب ڈالر سے کم ہو کر پانچ سو ملین ڈالر تک گر چکی ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے اسلام آباد میں 26 اور27 اکتوبر کو دو روزہ ’’ پاکستان ۔افغانستان تجارت اور سرمایہ کاری‘‘ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ کانفرنس کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے کیا ۔ افغانستان قومی اسمبلی کے سپیکر (اولسی جرگہ )رحمان رحمانی وفد کے ہمراہ موجود رہے ۔ دونوں ملکوں کے متعلقہ وزارتوں اورمحکموں کے عہدے دار، چیمبر آف کامرس کے نمائندوں اور بڑی تعداد میں کاروباری طبقے نے اس میں شرکت کی ۔ اس کانفرنس کی سب سے اہم بات وفودکی سطح پر ریاستی عہدے داروں کی سربراہی میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان مختلف شعبوں میں تجارت کو فروغ دینے اور اس میں حائل رکاوٹوں کو مل کر ختم کرنے کے لئے سفارشات مرتب کرنا تھا ۔وفود کی سطح پر بات چیت کے دوران میں نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی کہ دونوں ملکوں کے اعلی ریاستی عہدے دار وں نے کاروباری برادری کو بھر پور موقع دیا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں حا ئل رکاٹوں کو دور کرنے کے لئے کھل کر اپنی تجاویز دیں۔گروپ ڈسکشن میں ایک طرف اگر چہ ریاستی عہدے داروں کا رویہ انتہائی مثبت تھا تو دوسری طرف کاروباری برادری نے بھی ماضی کی طرح ایک دوسرے پر الزامات سے گریز کیا اور صرف مسائل اور اس کے حل کے لئے تجاویز دینے تک محدود رہے ۔ ماضی میںمجھے اس طرح کے کئی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا لیکن جو ماحول اور رویہ اس کانفرنس میںتھا اس سے لگ رہا تھا کہ دونوں ممالک کی کاروباری برادری ماضی کو فراموش کرکے حال میں روشن مستقبل کے لئے فیصلے کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ وفود کی سطح پر مشاورت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ پر اخراجات کو کم کرنا ، مینو فیکچرنگ کی صنعت میں تجارت اور سرمایہ کو فروغ دینا ، زراعت ، خوراک ، لائیو سٹاک اور معدنیات میں تجارت اور سرمایہ کے لئے موقع تلاش کرنا ،بینکنگ ،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور طبی سیاحت کے شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے ماحول کو سازگار بنانے کے لئے سفارشات مرتب کرنا تھی ۔ دو ونوں میں وفد کی سطح پر باہمی مشاورت سے ٹرانزٹ ٹریڈ کو بہتر بنانے کے لئے 44 تجاویز مرتب کی گئی ۔ مینو فیکچرنگ کی صنعت کو ترقی دینے کے لئے مشترکہ طور پر 39 تجاویز پیش کی گئی ۔ زراعت ، خوراک ، لائیو سٹاک اور معدنیات میں سرمایہ کاری کے حوالے سے 19 تجاویز کی سفارش کی گئی ۔بینکنگ سیکٹر ،انفامیشن ٹیکنالوجی اور طبی سیاحت میں سرمایہ کاری کے لئے کاروباری برادری نے 27 سفارشات مرتب کئے ہیں ۔کانفرنس میں ہر کسی کو مادری زبان میں بات کرنے کی اجازت تھی اس لئے افغانستان کے کاروباری طبقے کو اظہار کا بھر پور موقع ملا۔ کانفرنس میں موجوددونوں ملکوں کے سرمایہ کاروں کا مطالبہ تھا کہ دونوں ممالک اپنے سیاست اور تجارت کو الگ رکھیں ۔ان کا کہناتھا کہ جوسفارشات مرتب کی گئی ہیں اگر اس پر عمل درآمد کیا گیا تو تجارت کا حجم سات سے اٹھ ہزار ارب تک بڑھایا جاسکتا ہے ۔ پورے ملک خاص کر خیبر پختون خوا اور ضم اضلاع میں کاروبار کی نئی راہیں کھلیں گی ، جبکہ افغانستان میں بھی بلا مبالغہ لاکھوں لوگوں کو روزگار کی سہولت مل جائے گی ۔ اس کانفرنس کی ایک اور اہم بات پاکستان کی ارکان اسمبلی کی ذاتی دلچسپی بھی تھی ۔ انھوں نے جس بھی گروپ ڈسکشن کی سربراہی کی مقررہ وقت سے زیادہ وہ بیٹھے رہے۔سیشن کے اختتام کے بعد بھی وہ نہ صرف موجود رہے بلکہ کاروباری برادری کو تحمل سے سنتے بھی رہے اور ان کے باقی ماندہ تجاویز کو بھی نوٹ کر تے رہے۔رکن قومی اسمبلی محمد یعقوب شیخ ، شندانہ گلزار خان اور منزہ حسن نے گروپ ڈسکشن میں بھر پور حصہ لیا۔اس دو روزہ تجارت اور سرمایہ کاری کانفرنس میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر دونوں دن خود موجود رہے۔جس سے لگ رہا تھا کہ وہ یہ سب کچھ ذاتی دلچسپی لے کر کررہے ہیں۔ اسمبلی سیکرٹریٹ کے اعلی عہدے دار خاص کر سپیکر چیمبر سے وابسطہ اہل کار وں کی ہمہ وقت موجودگی اور دلچسپی کو دیکھ کر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جو تجاویز مرتب کی گئی ہیں اگر وہ دفتروں میں بیوروکریسی کے روایتی تساہل کا شکار نہ بنیں تو امکان یہی ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کا مستقبل تابناک ہے ۔موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے سپیکر اسد قیصر سے درخواست ہے کہ اگر وہ ایوان میں حکومتی وزراء کو اسی طرح مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدگی پر قائل کریں جس طرح اس کانفرنس میں ارکان اسمبلی سنجیدہ تھے تو مجھے قومی امید ہے کہ ملک کے بہت سارے مسائل برسوں میں نہیں بلکہ چند مہینوں میں حل ہوسکتے ہیں۔ تینوں ارکان اسمبلی کی اس کانفرنس میں دلچسپی اور سنجیدگی کو دیکھ کر ایسے لگا کہ یہ لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ ان کو پارلیمنٹ میں وفاقی وزراء اور حزب اختلاف کی لڑائیوں کی وجہ سے سازگار ماحول مل نہیں رہا ۔