یہ موبائل فون سے بنی ہوئی چھوٹی سی فوٹیج ہے جو پڑوس میں بڑی تبدیلی کا پتہ دے رہی ہے ،ایک منٹ پینتس سیکنڈ کی فوٹیج میں نیلگوں آسماں پر اڑتی رنگ برنگی پتنگیںموبائل فون سے شوٹ کی گئی ہیں ،میرے لئے ابتدائی طور پر اس وڈیو کلپ میں کوئی دلچسپی کی بات نہ تھی ،زندگی میں پتنگوں کی ڈور تھامنے کا موقع کم ہی ملا ہے شوق تھا اور اب بھی نہیں ہے اس لئے اس وڈیو سے مجھے کیا دلچسپی ہونی تھی لیکن جس دوست نے یہ بھیجی تھی وہ بھی اچھا خاصا سنجیدہ مزاج ہے پھر اسکی عمر بھی پتنگوں او ر ڈور والی نہیں ،اس لئے میں یہ وڈیو دیکھتا رہا ،یہ لاہور کی طرح کا کوئی شہر لگ رہا تھا جسکی اونچی نیچی چھتیں ایک دوسرے سے تقریبا جڑی ہوئی تھیں ان چھتوں سے منچلے، رنگ برنگی پتنگیں اڑارہے تھے مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان پتنگوں میں ایسی کیا خاص بات ہو سکتی ہے ؟ اور پھر یہ خاص بات سامنے آگئی جب دفعتا ًنیلگوں آسماں پر اڑتی پتنگوں پر ایک بڑا سا ’’گڈا‘‘ جھپٹ پڑا اور میں چونک گیا اس بڑی سی فاتح پتنگ کی جھپٹ میں چونکنے والی بات تھی نہ مفتوح پتنگوں کا ڈولنا تھا ،اس میں خاص بات اس گڈے کا سبز سفید رنگ اور اس پہ بنا چاند تارہ تھا میں وڈیو دھیان سے دیکھنے لگا ۔تھوڑی دیر بعد مجھے پھرچونکنا پڑاجب میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا جس میں سبز ہلالی پرچمی پتنگ کی ڈور تھی۔ آپ کو میں یہیں اس سبزہلالی پرچمی رنگ کی پتنگ کو بوکاٹا کرتے چھوڑ کر آگے بڑھتا ہوں اور ایک اور تصویردکھاتا ہوں۔یہ تصویر ایک ادھیڑ عمر کی خاتون کی ہے جس کی آنکھوں میں نمی اور چہرے پر رنج و الم کے رنگ ہیں۔ بنا کسی کیپشن کے ہی یہ تصویر بتاتی ہے کہ اس دکھیاری پر کوئی قیامت ٹوٹی پڑی ہے اور قیامت بھی کوئی قیامت ۔جسکی عمر بھر کی کمائی یوں لمحہ بھر میں لٹ جائے تو اس کے لئے وہ لمحات کس کرب کے ہوں گے اسکا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ماں تھی جس کا جواں سال بیٹاکسی نے گولیوں سے چھلنی کردیا تھالیکن یہ کیا اس کی آنکھوں میں اشک اور ہاتھوں میں ٹافیاں تھیں ،کوئی روتے ہوئے ٹافیاں بانٹتا ہے ؟ یہ تصویر بھی دیکھیں یہ دہلی کے علاقے وسانت کنج کی ہے جس میں چاروں طرف راکھ پھیلی ہوئی ہے ،یہ عمارت کوئی اسکول مدرسہ یا کالج نہیں یہ سوختہ عمارت ایک گرجا گھر ہے جسے انتہاپسندوں نے پھونک ڈالا ،جلا کر راکھ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی رات کے کسی پہر کچھ اوباش یہاں آئے ان کے ہاتھوں میں پٹرول اور آتشیں سیال تھا ۔انہوں نے چرچ کا دروازہ توڑا شور پر چرچ کا پادری گھر سے باہر نکلا او ر قبل اسکے کہ وہ کوئی سوال کرتا اسے لاتوں اور ٹھڈوں پر رکھ لیا گیا ،مارنے والے مغلظات بک رہے تھے نفرت انگیز جملے اچھال رہے تھے اوردھمکا رہے تھے۔ انہوںنے پادری کو زدو کوب کرنے کے بعد چرچ کو آگ لگائی اور نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔ اچھا ! یہ واقعہ بھی سن لیجئے ،سترہ اپریل 2015ء میں ایک ڈاکٹر سرجن پروا زکے لئے حیدرآباد سے دوسرے شہر پہنچتا ہے۔ اسے ٹیکسی کی ضرورت پڑنی تھی اس کے لئے وہ پرواز سے پہلے ہی آن لائن ٹیکسی سروس کو فون کرتا ہے اور اپنے لئے ٹیکسی کی بکنگ کراتے ہوئے عجیب فرمائش کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے صرف میرا ہم مذہب ڈرائیور ہی چاہئے ،اس بات پر سرجن سے بات کرنے والا آپریٹر پہلے حیران ہوتا ہے اور پھر پریشان کہ وہ انہیں کیا جواب دے بہرحال اسے نرم لفظوں میں منع کر دیا جاتا ہے لیکن ایسے ’’انکار‘‘ کی ہمت کسی کسی ہی کو ہوتی ہے ،ذرا دیر کے لئے سوچیں کہ آپ ایک متمول تاجر ہیں ۔اچھا کھاتے کماتے ہیں، اچھا اوڑھتے پہنتے ہیں پھر آپ کو ایک پوش علاقے میں ایک بنگلے کی فروخت کا پتہ چلتا ہے پراپرٹی ڈیلر کہتا ہے صاحب ! موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں ،بہترین سودا ہے اور آپ کو وہ سودا سمجھ بھی آجاتا ہے آپ وہ خوبصورت بنگلہ خرید لیتے ہیں پھر بڑے شوق سے اپنے گھر والوں کو وہ بنگلہ دکھانے لاتے ہیں ،گاڑی سے اترتے ہیں، بیگم سر پر دوپٹہ درست کرتی ہوئی اشتیاق سے آگے بڑھتی ہے اور پھر پڑوس سے کسی کی نظر پڑتی ہے ،اس نظر کے بعد آپ اپنے بنگلے پر نظر ڈالنے کے لئے ترس جاتے ہیں، آپ اپنے بنگلے میں داخل نہیں ہوسکتے کیوں کہ آپ مسلمان ہیں ! یہ سارے واقعات من گھڑت نہیں عالمی اور بھارتی میڈیا میںشائع شدہ،نشر شدہ ہیں،جس ماں کی آنکھوں میں اشک اور ہاتھوں میں ٹافیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ دکھیاری مقبوضہ کشمیر سے ہے ،اسکے جواں سال بیٹے کو فوج اٹھا کر لے گئی تھی اور پھر وہ جیتے جاگتے واپس نہ آسکا،کئی دنوں بعد اسے علم ہوا کہ اسکا بیٹا تو بہت بڑا ’’آتنک وادی ‘‘ تھا جس نے بھارتی فوج پر حملہ کیاجواب میںبھارتی سورماؤں نے فائرنگ کرکے اس کا خاتمہ کر دیا ،اس نوجوان کی گولیوں سے چھلنی لاش گھر پہنچی تو ماں پر غشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں جبذرا ہوش آتا ہے تو اٹھ کر گھر میں شیرینی تلاش کرنے لگ جاتی ہے ،کچھ نہیں ملتاتومحلے کی دکان سے مٹھی بھر ٹافیاں لے کر بچوں میں بانٹنے لگتی ہے کہ کشمیر میں شہادت کو انعام سمجھا جاتا ہے وہاں آزادی پر جان وار دینے والوں کے گھر والے اسے اعزاز سمجھتے ہیں اور خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔جس ’’حیدرآباد‘‘کا پہلے ذکر کیا گیا وہ بھارت کا شہر ہے جس کے متعصب سرجن نائڈو بھی اسی خناس میں مبتلا تھا جس میں آج بی جے پی ہے اس نے ٹیکسی منگواتے ہوئے شرط رکھی تھی کہ ڈرائیور ہندو ہی ہونا چاہئے اور وہ بنگلہ جس میںمسلمان تاجر داخل نہ ہوسکا ۔ دہلی کا حصار کھینچنے والے کسانوں کی تحریک میں لگنے والے نعروں سے اندازہ ہورہا ہے کہ لاوہ پک چکا ہے ،تحریر کے آغاز میںپاکستانی پرچمی رنگ کے جس گڈے کی اڑان کا ذکر ہے وہ لاہور یا قصور کے منچلے نہیں اڑا رہے تھے وہ بھارتی پنجاب کا کوئی شہر ہے جسے اڑانے والے رنگین پگڑیاں باندھے سکھ نوجوان ہیں جو ردعمل میں پاکستان زندہ باد کا نعرے لگارہے ہیں۔ آثار بتارہے ہیں کہ اس بار کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی تاریخی ہوگاجو بھارت میں بھی منایا جائے گا،کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آواز اب خالصے بھی لگائیں گے اورجلد ہی اس آواز میں بھارت کی مظلوم اقلیتوں کی آواز بھی شامل ہوگی کہ بات بڑھ چکی ہے!