کراچی(سٹاف رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا حکومت چاہتی ہے کہ پوری قوم کینسر کی مریض بن جائے ؟پولیس اور اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کی ملی بھگت کے بغیر گٹکا فروخت نہیں ہوسکتا،وہ بھی ملوث ہیں۔پولیس کو معلوم ہوتا ہے گٹکا کون اور کہاں بنا رہا ہے ، گٹکا بنانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، آئی جی کو کتنا شیئر ملتا ہے ؟ اگر نہیں ملتا تو کارروائی کیوں نہیں کرتے ؟ ایس ایس پیز کے اثاثوں کی تحقیقات کرائیں سب پتا چل جائے گا ۔ابھی معاملہ نیب اور ایف آئی اے کو بھیجتے ہیں۔ بدھ کو گٹکے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہائیکورٹ میں کینسر وارڈ کے ڈاکٹرنے انکشاف کیاکہ صرف جناح ہسپتال کراچی میں منہ کے کینسر کے سالانہ 10 ہزارمریض آرہے ہیں ، سیکرٹری قانون نے بتایا کہ گٹکے پر پابندی کا بل کمیٹی کے سپرد کردیا ہے ، امید ہے ایک ہفتہ میں منظور ہوجائے گا۔ جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیئے کہ آپ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں، 15روپے کا گٹکا خریدنے والا اور بنانے والا برابر کیسے ہوسکتا ہے ۔عدالت نے حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کروڑوں روپے کمانے والے مینوفیکچرر کیلئے بھی 3سال کی سزا؟ گٹکا بنانے والوں کیلئے کم از کم عمر قید ہونی چاہئے ، آپ لوگ کیا چاہتے ہیں یہاں وزیر یا وزیر اعلیٰ کو بلایا جائے ؟ضرورت پڑی تو وزیر اعلی کو بھی بلائیں گے ، ایک ہسپتال میں منہ کے کینسر کی اتنی بڑی تعداد حیران کن ہے ، کیا یہ جنگی حالات نہیں؟ یہ بھی تو دہشت گردی ہے جو انسانوں کی جان لے رہی ہے ۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بڑے بڑے لوگ جو اسمبلیوں میں آتے ہیں وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ جب تک پولیس افسران کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے ۔ جسٹس صلاح الدین پنہورنے کہا کہ پولیس لکھ کر دے دوسری قوتیں بھی ملوث ہیں، عدالت نے گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کا حکم دیتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔