بگرام ایئر بیس ایک شہر میں تبدیل ہو چکا ہے‘ ایسا محفوظ شہر جہاں امریکی فوجی مقیم تھے‘ امریکی صدر ہمیشہ یہاں آتے‘ امریکہ کے بڑے دشمنوں کو بگرام ایئر بیس پر بنے قید خانے میں رکھا جاتا‘ عافیہ صدیقی یہیں پر رکھی گئیں۔ امریکی انخلا مکمل ہونے والا ہے‘ امید ہے چار جولائی تک یہاں سے تمام امریکی فوجی چلے جائیں گے‘ ان کے جانے پر ایئر بیس کا کیا مصرف رہ جائے گا یہ سوال اہم ہے۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت طالبان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتی اس لئے وہ بگرام میں کوئی ایسی ٹیکنالوجی‘ مشین اور کارآمد شے چھوڑ کر جانے کے حق میں نہیں جسے طالبان یا کوئی دوسرا عسکریت پسند گروپ استعمال کر سکے۔ سینکڑوں پروازوں میں سامان امریکہ منتقل کیا جا رہا ہے‘ ہزاروں مشینوں‘ آلات اور گاڑیوں کو سکریپ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بابا میر ایک افغان کباڑیہ ہے ، اس کا سکریپ یارڈ ان دنوں بھرا ہوا ہے۔ جنریٹرز‘ ٹینکوں کے آہنی پٹے اور خیموں کے ڈھانچے لوہے کے کچرے میں تبدیل کر دئیے گئے ہیں۔ یہ سب امریکی فوج کا سامان ہے۔ امریکی ہر اس شے کو کچرے میں تبدیل کر رہے ہیں جسے امریکہ لے کر نہیں جایا جا سکتا یا پھر جسے افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنا درست نہیں‘ وہ ہر اس شے کو کچرہ بنا رہے ہیں جو ان کے خیال میں عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے ٹیکنالوجی لیک ہونے کا ذریعہ بن سکتی ہویا امریکی مفادات کے لئے خطرناک ہو سکتی ہو۔ امریکی فوج نے 20فٹ لمبے دس ہزار کنٹینر افغانستان سے جہازوں یا پھر بذریعہ پاکستان سڑک کے راستے واپس لے جانے کا انتظام کیا ہے،حالیہ دنوں پینٹاگان کے جس بیان پر پاکستان میں ہنگامہ رہا اس کا تعلق اسی سامان کی واپسی کے لئے راہداری تھا‘ ہیلی کاپٹر ‘ فوجی گاڑیاں‘ ہتھیار اور گولہ بارود افغان نیشنل ڈیفنس اور سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا جا رہا ہے‘ کچھ فوجی اڈے افغان حکام کو دئیے جا رہے ہیں‘ حال ہی میں ہلمند کا اڈہ افغان فورسز کو دیا گیا‘ ہلمند کا 80فیصد دیہی علاقہ طالبان کے قبضے میں آ چکا ہے۔ افغانستان کا سکریپ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی تنازع بنا رہا ہے ۔مئی 2014ء کو بھارت کے معروف سٹیل بزنس مین سجن جندال نے پاکستانی وزیر اعظم کو دورہ بھارت کے موقع پر چائے کی دعوت دی۔ یہ ٹی پارٹی پاکستانی اور بھارتی میڈیا کے لئے دلچسپی کا باعث بنی۔ سجن جندال بھارت کے بارسوخ اور بین الاقوامی رابطے رکھنے والے صنعت کار ہیں۔ وہ نریندر مودی کے قریب سمجھے جاتے ہیں اسی لئے مریم نواز کی بیٹی کی شادی پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جاتی عمرہ آئے۔ بھارت نے افغانستان میں ہسپتال‘ ٹرانسپورٹ‘ تعلیمی ادارے اور آبپاشی کے شعبے میں بھاری رقوم خرچ کی ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز ار میڈیا میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کی گئی ہے تاکہ پاکستان کے مقابل بھارت نواز لابی پیدا کی جا سکے۔ بھارت چاہتا تھا کہ بامیان میں موجود خام فولاد کے قدرتی ذخائر سے فائدہ اٹھائے‘ دوسرا افغان جنگ کے خاتمے کی صورت میں وہ سکریپ کی بڑی مقدار بھارت منتقل کرنا چاہتا تھا۔ سجن جندال ’’افغان آئرن اینڈ میٹل کنسورشیم‘‘ کے سرکردہ رکن تھے۔ سابق صدر اوبامہ کی جانب سے 2014ء کے آخر میں انخلا کے اعلان پر یہ کنسورشیم چاہتا تھا کہ سکریپ کو بھارت پہنچانے کے لئے پاکستان زمینی راہداری فراہم کر دے۔ بھارت میں فولاد ساز ادارے JSWکے مینجنگ ڈائریکٹر سیشا گری رائو نے بعدازاں تصدیق کی کہ بھارتی صنعت کار پاکستان کے راستے افغان خام فولاد اور سکریپ بھارت لانے کے لئے بے چین تھے۔ بھارت نے اس سلسلے میں افغانستان سے ایک ایم او یوبھی کر رکھا تھا۔ متبادل روٹ خام فولاد کو روس پہنچانے اور وہاں بھارت پہنچانے کا تھا جو وقت اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل قرار دیا گیا۔ افغانستان سے معاہدے کے بعد بھارت نے بھارتی کنسورشیم نے افغانستان میں حاجی جاک پہاڑی سلسلے میں دو ملین ٹن پیداوار صلاحیت کا فولاد کا کارخانہ لگایا۔ یہاں اعلیٰ درجے کا فولاد تیار ہو رہاہے۔ سجن جندال اور ان کے بھائی نوین جندال، جندال سٹیل اور سجن جندال کی دوسری کمپنی JSWکے اس کنسورشیم میں حصص 16 فیصد ہیں۔ پرائیویٹ صنعتکاروں کے پاس مجموعی طور پر 44 فیصد حصص ہیں۔ افغانستان کا سکریپ امریکی انخلا کے دوران بڑھ گیا ہے‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیر قانونی تجارت اور مال کا لانا‘ لے جانا معمول کی بات ہے‘ جہاد کے دوران سوویت یونین کے فوجیوںسے چھینی گئیں جیکٹس ‘ بندوقیں اور امریکی رسد سے نکالا گیا دوسرا سامان مہاجر کیمپوں اور پشاور کے قریب باڑہ مارکیٹ میں ملا کرتا تھا‘ اب افغان سکریپ پاکستان پہنچ رہا ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی اہلکار 2014ء کی طرح اس بار بھی سکریپ سستے داموں فروخت کر رہے ہیں‘ حالیہ دنوں ایک افغان کباڑیے نے 70ٹن ناکارہ اشیا سے بھرا کنٹینر 40ہزار ڈالر میں خریدا ہے۔ کئی طرح کی چیزیں پاکستان کے چور بازار میں موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔ گاڑیوں کے سپیئر پارٹس والے اس کاروبار میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ امریکہ کے کئی اتحادی اس صورت حال سے ناراض ہیں ۔ان کے خیال میں ایسی بہت سی چیزیں افغان کباڑیوں کو فروخت کی جا رہی ہیں جنہیں معمولی سی مرمت کے بعد قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کیلئے ان میں سے بعض آلات دلچسپی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ دفاعی آلات کے علاوہ ایک منافع بخش موقع سکریپ کا استعمال ہے‘ افغانستان کے پاس لاکھوں ٹن سکریپ پڑا ہے۔ یہ سکریپ جسے بھی فروخت کیا جائے وہ ملک سے باہر لے جانے کیلئے پاکستان یا روس کا راستہ اختیار کرے گا۔ بھارتی ڈیلر روس میں اس سکریپ کو لوہے میں ڈھالنے کیلئے غور کر رہے ہیں۔ پاکستان کے صنعت کار اگر حکومتی نگرانی میں ایک کنسورشیم بنا کر اس سستی سکریپ کو مقامی بھٹیوں تک پہنچا دیں تو ملک میں فولاد اور سٹیل کی صنعت کو مستحکم ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔ ہاں شریف خاندان بھی اس کاروبار میں حصہ دار بننا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ سندر انڈسٹریل ایریا لاہور میں واقع اتفاق سٹیل ملز بھی چاہے تو اسے کنسورشیم میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔