موجودہ حکومت کے نفس‘ ناطقہ کے بارے میں ایک باخبر دوست بتا رہے تھے کہ ان کی بیگم صاحبہ نے انہیں فون کیا تو مصروفیت کے سبب بات نہ ہو پائی‘ دو تین بار فون کے بعد رات گئے بیگم صاحبہ نے ایس ایم ایس کیا کہ وہ کال اٹینڈ کیوں نہیں کر رہے؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟ جوابی ایس ایم ایس میں مشیر محترم نے لکھا کہ کام بہت زیادہ ہے اور عمران خان کی طرح وہ کام نمٹا کر ہی دفتر چھوڑ سکتے ہیں‘ دو تین بار ایسا ہی ہوا تو ایک روز بیگم صاحبہ نے جل کر فون کیا اور کہا عمران خان سے لے کر آپ تک ہر حکومتی عہدیدار مصروف بہت ہے‘ آپ کہتے ہیں صبح ‘ دوپہر‘ شام کام ہو رہا ہے۔ بیوی بچوں سے ملنے‘ ان کی بات سننے اور گھریلو معاملات پرتوجہ دینے کی فرصت نہیںلیکن اوپر سے نیچے تک کارکردگی کہیں نظر نہیں آ رہی‘ نتیجہ صفر ہے اور عوام بیزار اور برہم‘ یہ کیسا کام ہے جو آپ کرتے ہیں مگر محدب عدسہ لگا کرکسی کو نظر نہیں آتا؟ دوست بتا رہے تھے کہ حکومتی عہدیدار اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب بیگم صاحبہ کو نہ دے پائے۔زیادہ پریشان اس بات پر ہیں کہ میری ریاضت کا بچشم خود مشاہدہ کرنے والی پڑھی لکھی بیگم حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو عوام کالانعام کیونکر خوش ہوں گے؟ موجودہ حکومت کے وزیر اعظم‘ وزراء اعلیٰ اور بیشتر وزیروں کی مصروفیات دیکھ کر بظاہر لگتا یہی ہے کہ بہت کام ہو رہا ہے۔ عمران خان کے بارے میں واقفان حال یہی بتاتے ہیں کہ وہ سولہ سترہ گھنٹے کام کرتے ہیں‘ آٹھ نو ماہ سے وہ اپنے بیٹوں کو مل سکے نہ اپنی جان چھڑکنے والی ہمشیرگان اور دیگر رشتہ داروں سے ان کا رابطہ ہے‘ ہمارے دوست اور عمران خان کے برادر نسبتی حفیظ اللہ خان نیازی کے صاحبزادے حسان خان نیازی کی شادی ہوئی تو بہت سے لوگ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ حفیظ اللہ نیازی سے سیاسی اختلافات کے باوجود عمران خان اپنے بھانجے اور تحریک انصاف کے ٹائیگر حسان نیازی کی خوشی میں ضرور شریک ہوں گے کیونکہ جب دونوں عم زاد بھائیوں (عمران خان اور حفیظ اللہ نیازی )کے مابین شکر رنجی پیدا ہوئی تو حسان نے والد کے بجائے قائدکا ساتھ دیا‘ تحریک انصاف کو نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنانے کے لئے دن رات کام کیا اور نظریے کو خونی رشتے پر فوقیت دی مگر عمران خان اپنے بھانجے اور تحریک انصاف کے مخلص‘ جانثار اور پرجوش ٹائیگر کی خوشی میں بھی شریک نہ ہو سکے۔بعض ناقدین اگرچہ اسے عمران خان کی روایتی بے مروّتی اور انسانی رشتوں سے بیگانگی قرار دیتے ہیں لیکن خوش گمانی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ملک کو مسائل کی گرداب سے نکالنے میں مگن وزیر اعظم کی بے پایاںمصروفیت اور ذاتی رشتوں پر قومی فرض کو ترجیح دینے کی خواہش سمجھا جائے۔ پنجاب ‘کپتان نے سردار عثمان خان بزدار کے حوالے کیا ہے اور وہ ان کی بھر پور پشت پناہی کر رہے ہیں وفاقی حکومت کی کامیابی و ناکامی کا زیادہ تر انحصار بزدار صاحب کی پرفارمنس پر ہے۔ مہنگائی پر قابو پانا‘ روزگار ‘ تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا اور عوام کی جان و مال‘ عزت و آبرو کا تحفظ وزیر اعلیٰ کا فرض ہے‘ ملتان میں نشتر ٹو کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے راستے میں مجھے اور خالد قیوم کو ملتان‘ ڈیرہ غازی اور تونسہ شریف میں اربوں روپے کی لاگت سے شروع ہونے والے منصوبوں کی تفصیل بتائی اور جائز طور پر داد طلب کی مگر بنیادی سوال وہی ہے کہ اگر ہمارے حکمران اس قدر انہماک سے کام کر رہے ہیں‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں تو پھر لوگوں کو صرف مہنگائی‘ افراتفری اور بے سمتی کیوں نظر آتی ہے؟ہر روز ایک نیا سکینڈل کیوں جنم لینے لگا ہے اور عمران خان کو چھوڑ کر ان کے باقی قابل اعتماد ساتھیوں پر وہی الزامات کیوں لگ رہے ہیں‘ سابقہ حکمرانوں کو جن کا سامنا رہا۔مثلاً احسن گجر اور ان کی بیگم کی سرکاری معاملات میں مداخلت و بیرون ملک روانگی‘ بعض وزیروں کی رشوت ستانی و اقربا پروری وغیرہ وغیرہ۔وفاقی کابینہ میں ردوبدل کے بعد پنجاب کابینہ میں تبدیلی کی قیاس ارائیاں کیوں زور پکڑ گئیں ؟ پولیس و بیورو کریسی میں بار بار اعلیٰ سطحی تبادلوں کے باوجود استحکام کیوں مفقود ہے؟ صوبہ کیوں مفلوج ہے؟ شریف خاندان تھکاوٹ کا شکار ہے‘ زرداری خاندان نیب‘ ایف آئی اے اور عدالتوں کو مطلوب اور اپوزیشن صرف پارلیمنٹ میں شورو شرابے‘ دنگا فساد اور الزام تراشی تک محدود‘ اس کے باوجود حکومت ع کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ کی تصویر بنی ‘اپنے مداحوں ‘ خیر خواہوں کے حوصلے اور صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ کرپشن‘ نااہلی اور اقربا پروری کی کیچڑ میں لت پت اپوزیشن کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور ریاست مدینہ کے رومانس میں مبتلا عوام کی اُمیدوں پر اوس پڑ رہی ہے‘ بقول اطہر شاہ خان جیدی ؎ میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی آنکھ میں موتیا اتر آیا مہنگائی ‘ بے روزگاری اور بے یقینی کا طوفان اُمڈا چلا آ رہا ہے۔ عبدالرزاق دائود اور دیگر وزیر مشیر قوم سے ایثار و قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں مگر اپنا موج میلہ ختم کرنے پر تیار ہیں نہ معیشت کے مفلوج و منجمد پہیے کو تیز رفتاری سے گھمانے کے قابل۔ امیر بدستور امیر تر ہو رہے ہیں‘ غریب غریب تر اور حکمران بیورو کریسی کے ہاتھوں یرغمال بنے انہی پالیسیوں پر کاربند جو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کا طرہ امتیاز تھیں ‘قوم جلد باز ہے ہتھیلی پرسرسوں جمانے کی عادی مگر حکمران بھی زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کے قدیم محاورے کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہیں اور کام اگر کوئی ہو بھی رہا ہے تو عوام کو میڈیا کے ذریعے بتانے کی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔اگر ایک سرکاری عہدیدار کی اہلیہ کو بھی علم نہیں کہ ان کے شوہر نامدار اوران کے دیگر ساتھیوں نے اب تک کون سا کارنامہ سرانجام دیاہے تو ہما شما کا کیا قصور؟مدارس میں اصلاحات‘ پی ٹی ایم کے را سے رابطوں اور ملک دشمن سرگرمیوں کی اطلاع بھی وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کے بجائے ڈی جی آئی ایس پی آر قوم کو دیں تو تاثر خراب کیوں نہ ہو؟ اس بے یقینی اور نا امیدی کے باعث افواہیں جنم لیتی اورقیاس آرائیاں پروان چڑھتی ہیں کبھی صدارتی نظام کے ذریعے موجودہ سیاسی اور حکومتی ڈھانچے کی تبدیلی کی بحث چھڑتی ہے اور گاہے دو صوبوں کے وزراء اعلیٰ کی رخصتی کی خبریں شائع ہوتی ہیں‘ سول ملٹری تعلقات میں سرد مہری کے قصے سننے کو ملتے ہیں اور وزیر اعظم کی بیرون ملک تقریروں میں غیر محتاط جملوں پر برہمی کی کہانیاں بھی چسکے لے کر بیان کی جاتی ہیں۔ بیجنگ میں وزیر اعظم کا برجستہ گفتگو سے گریز اورتحریری تقریر پر انحصاربطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے ‘کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان اور ان کے ساتھی قوم کے صبر اور حوصلے کا مزید امتحان لینے کے بجائے اس تاثر کو دور کرنے پر توجہ دیں کہ موجودہ حکمران مصروف بہت ہیں۔‘کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام تک ریاضت کر رہے ہیں اور سابقہ حکومتوں کے ڈالے ہوئے گند کی صفائی میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے مگر نتیجہ صفر نہ سہی اس قدر مایوس کن ہے کہ مخالفین کے لئے منفی پروپیگنڈا آسان اور مداحوں کے لئے دفاع مشکل۔ بجا کہ حقیقت یہ نہیں‘ تاثر مگر یہی ہے اور اپنی بے عملی کے علاوہ کمزور‘ ناقص اور بے سمت میڈیا حکمت عملی کے سبب یہ تاثر دن بدن پختہ ہوتا جا رہا ہے مثلاً وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے ملتان‘ ڈیرہ غازی خاں وغیرہ میں اربوں روپے کے عوامی منصوبوں کا اعلان کیا‘ سنگ بنیاد بھی رکھا مگر میڈیا میں اشتہارات بچوں کی پیدائش میں وقفے کے چل رہے ہیں یا گاڑیوں کی رجسٹریشن میں تاخیر کے نقصانات سے عوام کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ناتجربہ کاری ہے‘ استعداد و صلاحیت کا فقدان یا مردان کار کی کمی۔ عوام کو پھل کھانے سے مطلب ہے‘ پیڑ گننے سے نہیں۔ فی الحال تو عوام بے چارے تلملا رہے ہیں ؎ کیا چارہ کریں کیا صبر کریں‘ جب چین ہمیں دن رات نہیں یہ اپنے بس کا روگ نہیں‘ یہ اپنے بس کی بات نہیں