محفل تو بہت سنجیدہ تھی مگر بات زیادہ ہی دلچسپ ہو گئی۔ ہمارے پیارے دوست عبدالغفور نہایت سنجیدگی سے بتا رہے تھے کہ انہیں فلو ہو جائے تو جہاں گلا خراب ہو جاتا ہے وہیں ان کے ٹخنے اور پنڈلی میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ اس بیان پر ہمیں لامحالہ ایک جھٹکا سا لگا کہ گلے کا ٹخنے سے کیا علاقہ یا سروکار۔ ان کی بات پر فوراً ہمارے دل میں امام دین گجراتی کا مصرع چٹکیاں لینے لگا کہ ’’میرے گوڈے میں دردِ جگر مام دینا‘‘ پھر مجھے ایک اور شخص یاد آیا جو ریگل چوک میں کتابیں بیچتا تھا۔ وہ شاعر تھاتخلص شمس کرتا تھا۔ اس کی تین کتب بھی دیکھیں عقل نمبر1،عقل نمبر2اور عقل نمبر3 دلچسپ بات تھی۔ اس نے زبردستی مجھے نظم سنائی جس میں ایک مصرع پتہ نہیں کونسی بحر میں تھا کہ ’’مصرع سوچتے سوچتے میری ناک کی ہڈی چور ہو گئی‘‘۔ خیر عبدالغفور ایڈووکیٹ صاحب نے اپنی پریشانی کا ذکر ہمارے ڈاکٹر دوست ناصر قریشی سے بھی کر دیا اور اس مسئلے کی وضاحت کچھ یوں کی کہ بظاہر ناک کا پنڈلی سے کوئی تعلق نہیں مگر ان کے ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ بعض لوگ فلو کی وجہ سے بعض ربوطبتیں کسی جگہ بھی جگہ پا کر اکٹھی ہو جائیں تو یہ مسئلہ ہو جاتا ہے اور اس کی باقاعدہ ہسٹری بھی عبدالغفور نے بتائی کہ ایک زمانے میں ایک ایکسیڈنٹ میں انہیں پنڈلی پر ضرب آئی تو اس کا آپریشن بھی ہوا تھا۔ لہٰذا وہیں کوئی سپیس بن گئی ہو گی۔ ڈاکٹر ناصر قریشی مسکرائے اور کہا کہ آپ کی بات کو رد نہیں کیا جا سکتا مگر آپ اس درد کے لیے پین کلر لے لیا کریں۔ اس کے بعد میں نے انہیں اپنے ایک پروڈیوسر دوست کا واقعہ سنایا جو دلچسپی سے خالی نہیں اور عین اس طرح کا ہے۔ تب میں ٹی وی کے لیے گیت لکھ رہا تھا تو ہمارے پروڈیوسر انجم صاحب ایک روز مجھے حیرت سے پوچھنے لگے کہ آپ کی عمر تو صرف 29سال ہے اور آپ کے 9شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اتنی کم عمری میں اتنا کام۔ پھر خود ہی اپنی حیرت کا جواب دیتے ہوئے بولے اتنا کام تو زیادہ تر شاعروں نے وفات کے بعد کیا۔ ظاہر ان کی اس خواہش پر مجھے جھٹکا لگا اور میرے دوستوں کو بھی یہ اظہار پسندنہ آیا۔ اتنے میں میرے دوسرے دوست پروڈیوسر ذوالفقار فرخ بولے ’’یار! اس کا قصور نہیں ہے ایک ایکسیڈنٹ میں اس کے ذہن کا ایک حصہ متاثر ہوا تو ڈاکٹر اس کی ٹانگ کا ایک حصہ ذہن میں لگا دیا اور ذہن کا ناقص حصہ ٹانگ میں، تب سے یہ کبھی کبھی ذہن سے ٹانگ کا کام لیتا ہے‘‘ اس پر محفل کشت زعفران بن گئی۔ اس کے بعد ہماری گفتگو ایک اور دلچسپ مرحلے میں داخل ہوئی جب عبدالغفور نے ایک اور مسئلے کی نشاندہی کی کہ ان کے ڈاکٹر نے کلیسٹرول کے لیے جو گولی دی ہے اس کا سائیڈ افیکٹ دور کرنے کے لیے دو اور گولیاں دی ہیں تا کہ گردے محفوظ رہیں۔ مجھے یاد آیا کہ مشتاق احمد یوسفی نے کئی قسم کی چٹنیاں گنوائی تھیں اور بتایا تھا کہ اس چٹنی کا دف مارنے کے لیے دوسری چٹنی اور دوسری کا دف مارنے کے لیے تیسری چٹنی علیٰ ھٰذالقیاس، اسی طرح ہمارے انور مسعود نے بھی ایک نظم لکھی تھی جس میں سنیاسی اپنے مریض کو کئی قسم کی دوائیاں دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کونسی دوائی کس کے بعد اور کونسی کس سے پہلے کھانی ہے ’’کھانی ہے تجھ کو یہ بھی دوا اس دوا کے بعد‘‘ پھر مریض حکیم سے پوچھتا ہے کہ اسے دوبارہ کب حاضر ہونا ہے ’’روزِ جزا سے پہلے کہ روز جزا کے بعد‘‘ ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ دیکھیے دنیا میں کوئی ایسی دوا نہیں جس کا سائیڈ افیکٹ نہ ہو اور اسی سائیڈ افیکٹ کے باعث ہی دوائیوں کا کاروبار چلتا ہے۔ بات مذاق مذاق میں ایک سنجیدہ ٹاپک کی طرف نکل گئی کہ پراپیگنڈا بہت کام کرتا ہے۔ انہوں نے امریکنائز Amercanizeانداز کا ذکر کیا کہ بس یہی ڈگر چل رہی ہے کہ آپ کا مفاد کیا ہے۔ امریکن سسٹم میں واقعتاً بے لحاظی ہے۔ ہم اس سسٹم کے تحت اپنے اپنے پیسے ڈال کر کھانا کھاتے رہے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک مگر اس سے آگے تو مکمل خود غرضی پھوٹتی ہے۔ سیدھے اور سادہ الفاظ میں یہ کہ پیسے کیسے بنانے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس انداز زندگی میں اخلاقیات نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔ استحصال کوئی عیب نہیں خیر کی تشریح وہ خود ہی یہ کرتے ہیں کہ جس میں آپ کا فائدہ ہو، دوسرا جائے جہنم میں۔ میڈیسن کے شعبے میں ایسا ہی ہوا۔ اس سے پہلے سعدیہ قریشی بھی اس پر دو کالم لکھ چکی ہیں کہ باقاعدہ بیماریاں بیچی جاتی ہیں۔ دوائی بیچنے کے لیے اس کی طلب پیدا کی جاتی ہے یعنی کوئی نہ کوئی بیماری کا خوف پیدا کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دلچسپ انداز میں بات سمجھائی کہ دوا ساز کمپنیاں جو کہ مافیا سے کم نہیں، ڈاکٹرز تک اپروچ کر کے طے کرتی ہیں کہ کس درجہ بلڈ پریشر یا کلسٹرول لیول تک ایک دوائی تجویز کرنی ہے۔ فرض کریں ایک درجہ طے کر کے دوائی شروع ہوتی ہے اور اس کے مریض دس کروڑ نکلتے ہیں اور دوائی زیادہ بن گئی ہے تو ڈاکٹرز کو دوبارہ اپروچ کر کے وہ لیول کم کروایا جا سکتا ہے تو یقینا خود کار طریقہ سے مریض بڑھ جائیں گے۔ 200لیول پر دو کروڑ تھے تو 150لیول طے کرنے پر دوائی کی طلب بڑھ جائے گی۔ ڈاکٹروں کو باقاعدہ غیر ملکی ٹورز بھی نہیں لگوائے جاتے انہیں شاپنگ وغیرہ بھی کروائی جاتی ہے۔ بہرحال یہ امریکنائزیشن بہت خطرناک ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ سکون کے لیے یا انگزئٹی وغیرہ سے بچنے کے لیے جو ننھی سی گولیاں دے دی جاتی ہیں وہ آسودگی تو دیتی ہیں مگر آپ جب ان کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے بغیر نیند کب آتی ہے۔ جب آپ فطرت میں دخل اندازی کرتے ہیں تو پھر بات روٹین سے کسی اور طرف نکل جاتی ہے۔ آپ کسی کے بھی زیر اثر چلے جائیں نتیجہ تو ایک ہی نکلتا ہے کہ آپ طفیلی ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تھوڑی بہت اونچ نیچ کو برداشت کر لینا چاہئے۔ اس میں نفسیات کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ جو بھی ہے زندگی کے ساتھ ساتھ بیماریاں بھی ہیں۔ کسی نے یونہی نہیں کہا تھا کہ "Life is a long sentence of sorrow which is punctuated by happiness" بہر حال شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک، بندہ بعض اوقات گھبراتا بھی ہے۔ تبھی تو غالب نے کہا تھا! کیوں گردشِ مدام سے گھبرانہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں اسی گردش پر ایک شعر اور اجازت: ؎ گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تُو نے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا