کوئٹہ میں ڈفرن ہسپتال کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں 2افراد جاں بحق جبکہ 14زخمی ہوئے ہیں۔ بم ایک موٹر سائیکل میں نصب تھا۔ مقامی ذرائع مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ دوسرا واقعہ راولپنڈی میں پیش آیا۔ کینٹ کے علاقے میں پولیس اہلکاروں نے ایک مشکوک شخص کو رکنے کا کہا تو اس نے فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کی زد میں آ کر دو پولیس کانسٹیبل شہید اور 3راہگیر زخمی ہو گئے۔ بعدازاں موقع پر پہنچنے والے ڈولفن اہلکاروں کی جوابی فائرنگ میں حملہ آور ہلاک ہو گیا۔ ایک ہی دن ملک کے دو مختلف شہروں میں ہونے والے ان واقعات کے بعد سکیورٹی اداروں کا چوکس ہو جانا قابل فہم ہے۔ خصوصاً مشرق وسطیٰ کی صورت حال جس طرح اہل پاکستان کے لئے اہمیت رکھتی ہے وہ ایسے خدشات کی وجوہات ظاہر کرتی ہے۔ تین روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینٹ میں تقریر کے دوران اس نوع کے خدشات بارے آگاہ کیا تھا۔ اسی لئے ان واقعات کو مقامی سے زیادہ علاقائی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے اپنے مقاصد میں رکاوٹ پیدا کرنے اور اپنی عسکری قوت کے خلاف مزاحمت کرنے والے گروپوں کے خلاف پوری دنیا میں ایک لڑائی شروع کی۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے دہشت گردی کی ایسی تعریف اور انسداد کے ضابطے وضع کئے کہ اس کی زد میں وہی گروہ آتے تھے جنہیں امریکہ ملیا میٹ کرنا چاہتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف اس لڑائی کو جنگ کا نام دیا گیا۔ نیٹو کے 28رکن ممالک کے علاوہ پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے کر اس سے سپلائی کی راہداری اور کچھ علاقوں میں اڈے لئے گئے۔ پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ اور کچھ دوسرے حوالوں سے فوجی و سماجی منصوبوں کے لئے امداد دینے کا وعدہ کیا گیا۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ نے کئی وعدہ خلافیاں کیں‘ فنڈز روکے اور قربانیوں کا عملی اعتراف نہ کیامگر یہ سچ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے شروع دن سے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسزاور شہریوں نے 75ہزار جانیں قربان کیں۔ ایک کھرب ڈالر کے لگ بھگ مالی نقصان ہوا۔ قوم اپنی معاشی و سماجی ترقی پر جو وقت خرچ کر سکتی تھی وہ اٹھارہ برس دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے گزار دیے۔ اس جنگ نے ہمیں کیا کیا صدمے نہ دیے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو بچے شہید کر دیے گئے‘ کئی سیاسی رہنما شہید ہوئے۔ لاہور اور کوئٹہ میں وکلاء کے جلوس پر حملے ہوئے اور درجنوں وکیل جاں بحق ہوئے۔ پورے ملک میں پولیس‘ رینجرز اور فوج کے اہلکار و افسران کو نشانہ بنایا گیا،مزارات پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔اگرچہ سن 2009ء کے بعد دہشت گردی کے متعدد بڑے واقعات رونما ہوئے لیکن 2009ء کے بعد ایسے واقعات میں کمی ریکارڈ کی گئی۔2019ء میں ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں 13فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان سکیورٹی رپورٹ 2019ء میں بتایا گیا ہے کہ پورے سال میں نہ صرف ایسے واقعات میں کمی آئی بلکہ جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی 2018ء کی نسبت 40فیصد کمی ہوئی۔ حال ہی میں گزرنے والے سال 2019ء میں دہشت گردی کے کل 229واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں چار خودکش حملے تھے۔ ان واقعات میں 164شہری جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 163اہلکار شہید ہوئے۔ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پرحملے کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا۔ اس پلان میں پورے سماج اور اس کے اداروں کی پڑتال بھی شامل تھی۔ ریکارڈ یافتہ افراد کی مانیٹرنگ کی گئی۔ دہشت گرد گروہوں کو میسر مالی تعاون کو روکنے کے لئے اقدامات کئے گئے۔ ناجائز اسلحہ اور لائوڈ سپیکر کے بے جا استعمال پر پابندی عاید کی گئی۔ ان اقدامات کو چونکہ پورے ملک کے تمام طبقات کی حمایت حاصل تھی اس لئے ان کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے قبل دہشت گردی کا ہدف معاشی مفادات رہے ہیں۔ اب جبکہ افغانستان میں امن کے قیام کے لئے طالبان اور ان کے حامی گروپوں کے مابین مذاکرات نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں تو یہ جنگ ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ خصوصاً خطے کے اہم ممالک چین اور روس کے تعاون نے عسکریت پسندی کے خاتمہ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ان اٹھارہ برسوں کے دوران ہر سطح پر دہشت گردی کے خلاف صف آرا رہا۔ پاکستان نے بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی اور عالمی امن کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ مسلسل قربانیوں کا ثمر ملک کی معاشی حالت بہتر ہونے کی صورت میں ملنے لگا ہے۔ سی پیک کے منصوبے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ دو دن پہلے ہی گوادر پورٹ پر ایل پی جی ٹرمینل کا افتتاح کیا گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری آنے لگی ہے۔ سعودی عرب اور امارات آئل ریفائنری لگانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ کئی کارسازکمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ ہیں۔ توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پوری قوت سے متحرک کرنے کے لئے وسط ایشیا سے کپاس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نئے ڈیمز کی تعمیر شروع ہو رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا فضا نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے منفی اثرات کو اپنا کام دکھانے کا موقع نہیں دیا۔ ایران امریکہ کشیدگی سے پاکستان متاثر ہوتا ہے ۔ جنرل قاسم سلیمانی کی موت پر پاکستان میں عوامی سطح پر ردعمل دکھائی دیا۔ ان حالات میں دہشت گردوں کا سرگرم ہونا پاکستان کے لئے نئے سکیورٹی چیلنج پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ ان اطلاعات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے کہ بھارت اپنے داخلی انتشار سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو متحرک کر رہا ہے۔