درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی آج تک اخباروں میں شہ سرخی یہی جمی ہے کہ کٹھ پتلیوں کا کھیل ختم ہونے والا ہے۔ یہ بظاہر ایک سرخی ہے مگر بڑی پہلو دار ہے۔ میں تو پہلی نظر میں ہی ڈر گیا ۔مجھے اپنے ایک دوست یاد آئے جنہوں نے اخبارکے دفتر میں کسی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم سرخی لگا دیتے ہوتے ہیں‘پاس سے میں نے کہا سرخی اتارتے بھی یہی ہیں۔ بات مذاق میں پڑ گئی سرخی ہی سے یاد آیا کہ ادھر تم ادھر ہم کی سرخی لگانے والے مرحوم عباس اطہر اس حوالے سے بہت مقبول ہوئے کہ سلطان راہی کی یہ بھی انہوں نے سرخی جمائی تھی کہ راہی عدم ہوا۔ سیاستدانوں کو مگر ان سرخیوں سے ڈر نہیں لگتا کوئی شاعر ہوتا تو کہہ دیتا کہ: اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی کٹھ پتلیوں کا کھیل ختم ہونے والا ہے کی سرخی سارے ہی سیاستدانوں کے خلاف لگتی ہے ،ان سب کا تعلق ایک ہی گروہ سے ہے بس کوئی پرانا ہے تو کوئی نیا۔ ان کے دانت گننے کی بھی ضرورت نہیں کہ کون دوندا‘ کون چوگا اور کون کھیرا ہے، اس منڈی میں سب ہی بکائو رہے ہیں اور بکنے کے بعد ہی ان کی اہمیت بڑھتی رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے لیڈر کوئٹہ کے جلسے میں بہت گرجے اور برسے ہیں اور انہوں نے جل تھل کرنے کی کوشش کی ہے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ جعلی حکومت کی پشت پناہی سے معذرت کر لے تو وہ انہیں آنکھوں پر بٹھانے کے لئے تیار ہیں۔ مریم اور بلاول کے بقول خان صاحب نے اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔ ویسے یہ تو ن لیگ کے دور میں بھی تھا کہ ادارے انہوں نے اپنے لوگوں کے حوالے کر دیے تھے اور اب یہ بس اللہ ہی کے حوالے ہیں۔ ویسے بیانات بہت سوچ سمجھ کر دینے چاہئیں کہ جھوٹ اگر زیادہ بڑھ جائے تو کہنے والے کی شخصیت تماشا بن جاتی ہے۔ افراط اور تفریط نہیں ہونی چاہیے۔ اب کوئٹہ کے جلسے کو بابر اعوان فرما رہے ہیں کہ پی ڈی ایم پٹ گئی جبکہ اس بیان کے ساتھ تصویر میں ہزاروں کا مجمع نظر آ رہا ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت کچھ زیادہ ہی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اپوزیشن باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے جبکہ حکومتی وزیروں میں کوئی ہم آہنگی نہیں۔ دوسرا ان کی کارکردگی بھی سامنے آ رہی ہے۔ ابھی میں سن رہا تھا کہ خان صاحب نے چھ بلٹ پروف گاڑیاں لینڈ کروزر ٹائپ اپنے چار چہیتوں کو عطا کی ہیں۔ جن میں زلفی بخاری شہزاد اکبر اور دوسرے ہیں۔ ایک آدھ کا کسی نے نام تک نہیں سنا تھا۔۔ اب سوا دو سال بعد انہوں نے اورنج ٹرین چلائی ہے تو اس پر بھی کسی کو اعتبار نہیں آ رہا کہ نام کر کے اب اسے بند کر دیا جائے گا۔ وجہ ظاہر ہو رہی ہے کہ شہباز گل کا بیان آ گیا ہے کہ اس پر 12ارب روپے سالانہ سبسڈی دینا پڑے گی۔ یہ بات تو پہلے سوچنے والی تھی۔ ایک اور خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ اگر کچھ نہ بن پڑا تو حکومت ایک مرتبہ پھر کورونا کے پیچھے چھپے گی۔ یہ زبان خلق ہے عوام اس لئے خلاف بولتے چلے جا رہے ہیں کہ ان کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ انڈہ 18روپے کا اور دیسی انڈا 25 روپے کا ہے اتنے میں تو مرغی آ جایا کرتی تھی۔ کسی نے مزے کا بیان دیا ہے کہ اداروں میں خود احتسابی کے عمل کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ سبحان اللہ۔ نیچے سے اوپر تک منتھلیاں جاتی ہیں۔ کوئی ایماندار اب تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ شاید وہ ایماندار ہو جو کہتا ہے کہ وہ رشوت لے کر دیانتداری سے کام کر دیتا ہے۔ رشوت اور کرپشن میں مبتلا تو سارے ادارے ہیں اور اس برائی کو روکنے والے دو ہاتھ آگے ہیں۔ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں بچے بچے کو اتنا معلوم ہے کہ تھانے کے تھانے ہی بکتے ہیں اور یہ عملے سمیت بھی بکنے کو تیار رہتے ہیں۔ عمران خاں اگر مخلص ہوتے تو کرپشن کرپشن اور پکڑ دھکڑ کی بجائے اداروں کے اندر کام کرتے۔ کوئی اصلاح ہوتی کہاں یاد آئے اسلم انصاری: جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی وہ گیا ہے تو کوئی روکنے والا بھی نہیں ایک بات طے کہ لوگ بہت باشعور ہو چکے ہیں کہ وہ مہنگائی وغیرہ سے تنگ تو بہت ہیں مگر اب بھی ملک سے پیار کرتے ہیں آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عظیم عالم دین مولانا شاہ احمد نورانی جنہوں نے قومی اتحاد میں مولانا مفتی محمود کے ساتھ مل کر اس قوم کی قیادت کی تھی۔ ان کا بیٹے اویس نورانی نے آزاد بلوچستان کی بات کی تو لوگوں کا ردعمل بہت ہی شدید ہے۔ چلیے یہ بھی اچھا ہے کہ اویس نورانی نے ایک پروگرام میں ’’آزاد ریاست بلوچستان‘‘ کے الفاظ کو زبان کی لغزش قرار دیا ہے اور معذرت کر لی ہے۔کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ لوگ اپنے وطن کی ٹوٹ پھوٹ برداشت نہیں کر سکتے۔ پہلے ہی میں اتنا بڑا گھائو لگا ہوا ہے کہ ملک کی ہی دولخت ہو گیا تھا۔ موجودہ حالات کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ اس کا کوئی نہ کوئی جمہوری حل نکلنا چاہیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اپوزیشن والے استعفے بھی نہیں دیتے اور پیپلز پارٹی کے پاس تو سندھ حکومت بھی ہے۔ پھر یہ حکومت کیسے تبدیل ہو گی۔ عوام تو باہر نکل آئے ہیں کہ ان میں مزید مہنگائی سہنے کی سکت نہیں۔ خدا خیر کرے ایک دفعہ سب اس سرخی کو پھر دیکھ لیں کہ سچ مچ ہی سب کچھ لپٹ نہ جائے۔اور سارا کھیل ختم ہو جائے جب تک کٹھ پتلیاں باقی ہیں کھیل بھی تو جاری ہی رہے گا۔ اب تو ان کو چاہنے والے ہاتھ بھی صاف نظر آنے لگے ہیں۔ سسپنس بھی ختم ہو چکا ہے۔ لوگ تو بس سانس لینے کی گنجائش مانگتے ہیں۔کوئی بالواسطہ بندوبست کر دے یا براہ راست۔