اوراق گرچہ ہم نے کئے ہیں بہت سیاہ لفظوں کی کائنات سے نکلے نہ مہرو ماہ شاید ہمارے ہاتھ میں ہوتی کوئی لکیر قسمت پہ بھی یقین ہمارا نہیں تھا آہ یہ تو ہے اور پھر موجودگی میں موت کی کیسی خوشی ملے۔اس غم سے زندگی کو مگر عمر بھر کی راہ، جی وہی کہ موت کا ایک دن معین ہے۔نیند کیوں رات بھر نہیں آتی اور پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی۔اب کسی بات پر نہیں آتی۔آپ یقین جانیے بس ایسی ہی صورت حال ہے کوئی پرسان حال نہیں وہ دست قاتل کہ جس کا تذکرہ فیض صاحب نے کیا تھا کہ دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے۔ کوئی راستہ کہیں نظر نہیں آتا بجلی کے بل جو پہلے ہی ہزاروں میں تھے اب عام نصف لاکھ سے اوپر آ رہے ہیں کون کس کو پکڑ سکتا ہے یہ سرکاری لوٹ مار ہے یا وائٹ کالر کرائم۔اک حشر بپا ہے اب کے بل بھی روٹین سے کئی روز اوپر ہو گئے تاکہ یونٹ بڑھ جائیں تو ریٹ بڑھ سکے۔ ایک سوال کئی پوسٹوں پر دیکھا اور اب کے یہ ہماری اردو تحریک کی صدر فاطمہ قمر نے اٹھایا کہ آئی ایم ایف نے کبھی بیورو کریسی ارکان اسمبلی سے حکومتی عیاشیاں ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ان کا سارا زور عوام کو بجلی گیس اور پٹرول کی مد سے نچوڑنے پر ہوتا ہے۔ منیر نیازی یاد آئے: پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو حسن والوں کی سادگی نہ گئی اور پھر ہو کوئی برباد اس سے تجھ کو کیا تیرے رخ پر سادگی باقی رہے گی۔ آئی ایم ایف اپنے کارندوں یا سہولت کاروں کا بازو کیوں کر مروڑے گا وہ تو ایک نظریاتی ادارہ ہے شاید آپ یہ بات نہیں سمجھیں گے اس کو کھولا گیا تو آپ مجھے دقیانوسی سمجھیں گے۔اصل میں یہ زمانہ اہل دہر کا ہے یہاں معیشت ہی دین دھرم ہے۔ایمان کا گزر ادھر سے کم ہی ہے۔ اپنی جنت کے لئے سب کو دوزخ میں ڈالنے کا نام۔اپنے وطن سے غداری اور اپنی قوم سے بے وفائی ان کے اعمال سے ظاہر ہے۔ وہی چھینا جھپٹی نیچے تک اتر آئی ہے۔حلال حرام اور جائز ناجائز والا معاملہ ہی کوئی نہیں۔ آنے والی کئی نسلوں کے جمع کرنے کا جنون اور قدرت انہیں اندھا کر دیتی ہے اور وہ کثرت کے شوقمیں جا قبریںدیکھتے ہیں۔جیبیں بھرنے والے ہاتھ جیبیں خالی تو نہیں کر سکتے۔یہ ون وے ٹریفک ہے ۔ عدیم ہاشمی نے کیا خوبصورت بات کی تھی: تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آوے ان لوگوں کی زندگیاں خلوص محبت اور ایثار سے خالی ہیں۔ ساتھ چلتے ہیں مگر ایک دوسرے پر نظر ہے کہ کہاں دھوکہ دینا ہے اور کہاں راستہ بدلنا ہے۔ساتھ کوئی اور چلتے ہیں منزل کسی اور کو ملتی ہے بلکہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ ویسے بھی یہ منزل بھی کب منزل ہے جسے دنیا منزل سمجھتی ہے یہ تو سراسر سفر ہے یعنی اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذوق اور شوق لوگوں کے لئے جینے کا عزم کھانے پینے اور مرجانے کے لئے تو جانور بہت ہیں۔زندگی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ بس اپنے شرف اور مقام کو پہچاننے کی بات ہے سب وقتی کھیل تماشہ ہے کہ بندر کی حرکتیں دیکھنے کے لئے بہت لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اقدار و روایات کا جنازہ بھی کب کا نکل چکا: سعد لہجے میں جو تلخی ہے کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا آپ دیکھتے ہیں کہ روزانہ یہ سرخی لگی ہوتی ہے یا کم از کم ہر سرخی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ساری دنیا پاکستان کی مدد کے لئے آگے بڑھے مگر بیان داغنے والے یا درخواست کرنے والے اپنی طرف نظر کیوں نہیں کرتے اربوں روپے کے بینک اکائونٹس رکھنے والوں نے قیامت گزر جانے اور برباد ہو جانے والوں کے لئے کیا پیش کیا۔سوائے غیر ملکی دوروں کے۔سب اقتدار کے لئے مرے جاتے ہیں ۔دھوکہ ہی دھوکہ سب بھوکے بھیڑیے وہی بھیڑیے کہ برے وقت میں وہ اپنے ہی کسی ساتھی کو غافلت پر کھا جاتے ہیں ہمیں تو اچھے موسموں کی آس تھی مگر لگتا ہے اہل زمین پر وقت سخت ہوا جا رہا ہے۔اب تو ورلڈ بنک نے بھی انتباہ کر دیا ہے کہ عالمی کساد بازاری کا خدشہ ہے۔ شاید کچھ ہونے جا رہا ہے کہ روس اور چین نے بھی امریکی ورلڈ آرڈر ماننے سے عملی طور پر انکار کر دیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں بلکہ سب سمجھتے ہیں کہ سلامتی کے سب ادارے امریکہ کی سلامتی کے لئے ہی سوچتے ہیں۔ دیکھیے کوئی نیا آرڈر کس کا آتا ہے مسئلہ تو ہمارے لئے ہے کہ ہم تو اپنے آپ میں بھی کسی آرڈر میں نہیں۔انسان جتنا مرضی مہذب ہو جائے مگر جنگل کے قانون سے نہیں نکل سکتا۔ڈر اور خوف اس کی جبلت میں ہے۔ طاقت سب سے بڑا قانون ہے صرف خوف خدا ہی ثابت قدمی بخشتا ہے وگرنہ مادہ پرستی میں لوگ اتنے آگے چلے گئے ہیں کہ بس۔کبھی ہوتا ہو گا یقینا ہوتا ہو گا کہ مثالیں موجود ہیں کہ ڈاکٹر انسانیت کی خدمت کرنا ،استاد قوم کا معمار تھا رہنما قوم کا باپ ہوا کرتا تھا تب تاجر بھی دیانتدار ہوا کرتا تھا۔معاشرے کا بگاڑ ایک جگہ پر نہیں رکتا تب۔اس سے بھی ایک قدم آگے کہ چور اور ڈاکو ان سے معاونت اور مدد پاتے ہیں مجھے تو اپنی تباہی پر شعر یاد آ رہا ہے : دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے آخری بات یہ کہ سب سے بڑی ضرورت آٹا اب غریبوں کی رسائی سے باہر ہو چکا ہے ایک صد روپے سے 108فی کلو بعض جگہ تو 135روپے کلو بک رہا ہے واقعتاً غریب کے منہ سے روٹی چھین جا رہی ہے۔افسر شاہی کے پھر وارے نیارے ہوں گے باہر سے گندم سبسڈی اور دوسرے لوازمات یہ پہلے گندم باہر نکالتے ہیں پھر باہر سے گھٹیا گندم خریدتے ہیںاور سبسڈی تو ان کا حق ہے لوگوں کی بے بسی اور مجبوریاں بیچنے والے بہت سنگ دل ہیں۔اب بھی سانپ خزانے پر بیٹھے ہیں: انسان اپنے آپ کو پہچانتا نہیں اک سانپ بولتا ہے سپیرے کی بین میں