دل وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے روشنی جتنی بھی ممکن ہو چرا لی جائے یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے آپ بھی جانتے ہیں کہ اصل میں تب و تاب ہی زندگی ہے مگر حسرتیں اس کے ساتھ آکاس بیل کی طرح لپٹی ہوئی ہیں۔ ابھی میں نے اتنا ہی لکھا تھا کہ ہمارے دوست مظفر مرزا کا فون آ گیا کہ میں انہیں اس شعر کا مطلب سمجھائوں جو میں نے اپنے گزشتہ کالم میں درج کیا ہے۔ ان کے تجسس پر مجھے خوشی ہوئی، شعر تو سادہ سا ہے: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے کہتے ہیں کہ شاعر میں اور عام آدمی بس اتنا سا فرق ہوتا ہے کہ عام آدمی منظر کو دیکھ کر گزر جاتا ہے اور شاعر ٹھہر جاتا ہے۔ وہ صرف آسمان ہی نہیں دیکھتا‘ اس میں لڑتے پرندوں کو بھی دیکھتا ہے اور اس پر چمکتے ستاروں کو بھی گنتا ہے۔ اس کو ہوا چھوتی ہے تو اس کا دل شگوفہ بن جاتا ہے۔ آپ کبھی انار کے پھولوں کو دیکھیں ایسے ہی اور پھلدار پودوں کے پھول۔ اکثر ان پھولوں کا سامنے والا حصہ جھڑ جاتا ہے اور عقب والا حصہ پھل بننا شروع ہو جاتا ہے ان دنوں بلکہ میرے گھر کے آنگن میں یہ پراسس مکمل ہو چکا ہے ۔ انار‘ مسمی اور گریپ فروٹ پر ماشاء اللہ بہت پھول لگے اور اب چھوٹے انار ‘ مسمیاں اور گریپ فروٹ آنکھوں کو خوبصورتی بخش رہے ہیں۔ پہلے اللہ کی قدرت کا اظہار پھول کر رہے تھے اب پھل منہ میں رس گھول رہا ہے۔ آپ اس بات پر حیران نہ ہوں میں نے ایک شعر کہا تھا: سب پرندے ہیں منتظر میرے میں ثمر ہوں شجر میں رہتا ہوں آپ یقین کیجیے کہ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ پرندوں کو اللہ نے حس دی ہے کہ وہ پھل ہی نہیں پھلدار درخت کو بھی پہچانتے ہیں اور انہیں موسموں کا بھی معلوم ہے کہ کب درخت پھول اٹھائے گا اور کب پھول پھل بنیں گے۔وہ پرندے انتظار میں رہتے ہیں۔ پہلا آم پکتا ہے تو اس پر طوطے کی چونچ کے نشان ہوتے ہیں۔ میرے گھر میں امرود تھا تو گلہری پکے ہوئے امرود تک بہت پہلے پہنچ جاتی تھی۔ میں نے اسے ننھے پنجے سے امرود کو پکڑ کھاتے دیکھا تو میں لذت بھری سے سرشار ہو گیا۔ واہ مولا تیرے رنگ میں بھی سمجھتا ہوں کہ شعر کی تشریح کرنا اسے برباد کرنے کے مترادف ہے مگر بعض اوقات اس کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ مرزا مظفر صاحب فرمانے لگے کہ یہ مفہوم ان کے ذہن میں آیا تھا مگر گہرائی اس سے بھی زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب فصل پک جاتی ہے تو پھر کٹائی کا وقت آتا ہے تو کسان بھی جھوم اٹھتے ہیں۔ گندم پر سونے کی بالیاں ہوں یا سرسوں پر سنہرے پھول۔ سب کچھ قدرت کا شاہکار ہے۔ مجھے بھی پھلدار درختوں کو دیکھ کر ایسے یہ لگتا ہے کہ جیسے سارا باغ قصیدہ خواں ہے اور ہوا ان میں سے سرسراتی ہے نغمہ تخلیق ہوتا ہے۔ مجھے تو ان میں سے گزرتی تند خو ہوائیں مزہ دیتی ہیں۔ منیر نیازی کا مشاہد ہ دیکھیں: شاں شاں کر دے رکھ پیل دے تے انھیاں کر دیاں واواں اوس رات تے بہتے لوکی بھل گئے گھر دیاں راہواں بات چل نکلی ہے تو شعر فہمی کا ایک اور واقعہ بیان کر دیتا ہوں کہ آپ کی طبع کو اچھا لگے گا۔ بہت پرانی بات ہے تب میرا شعری مجموعی’’بادل‘چاند ہوا اور میں آیا تو ایک روز ہمارے سینئر شاعر علی ظہیر منہاس میرے گھر تشریف لائے کہ میرا ایک شعر وہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ میں حیران اور پریشان کہ ایک جید قادرالکلام شاعر مذاق تو نہیں کر رہا۔ ان کا ایک شعر تو آپ بھی سن چکے ہونگے: کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے وہ میرے تعجب کو بھانپ گئے اور کہنے لگے سعد!سچ کہہ رہا ہوں مجھے وہ شعرہانٹ کیا۔ اس کی خوبصورتی کو کھولنا چاہتا ہوں۔ خیر ہم بیٹھ گئے چائے آ گئی گپ شپ ہونے لگی۔ انہوں نے میری ابتدائی غزلوں سے شعر پڑھا: میں گہری نیند سویا تھا مجھے بادل اٹھا لائے میں اک ندیا کنارے پر کسی وادی کا سپنا تھا میں نے کہا سر!اس میں تو ایسے ہی ایک شاعرانہ سا تصور ہے کہ جب سمندر سے سنامی اٹھتا ہے تو وہ خود اس سمندر کے کناروں بنے منظروں کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ بس ایک خواب سی بات ہے۔ میں خود بھی آگاہ نہیں کہ میں نے اصل میں کیا کہا ہے‘ وہ مسکرائے اور کہا بالکل سمجھ میں آ گیا۔میری اسی غزل کا آخری شعر تھا: اگرچہ سعد رستے میں بڑے دلکش جزیرے تھے مجھے ہر حال میں لیکن سمندر پار جانا تھا میرے معزز قارئین!آج تو ہم نے آپ کے ساتھ اپنے ہی دل ٹکڑوں کی بات کی۔ ویسے بھی دل چاہ رہا تھا کہ ذرا سیاست سے ہٹ کر بات کی جائے۔ پھر شاعر کے پاس تو شاعری ہے اور اسے بہانہ چاہیے کہ شعر پر بات کرے۔ ویسے شعر سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ایک مثال میں آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ کہ اقبال کا ایک شعر جو میں نے اکثر و بیشتر پڑھنے والو کو غلط پڑھتے دیکھا۔ حتیٰ کہ ایک ایم اے اردو لڑکی کو یونیورسٹی میں گا کر اسی طرح پڑھتے دیکھا تو سر پکڑ لیا۔ وہ پڑھ رہی تھی‘خودی ہے تیغِ فساںلاالہ اللہ‘ اب دیکھیے اس مصرع کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ اصل میں یہ مصرع یوں ہے: خودی ہے تیغ‘ فساں لاالا اللہ مقصد یہ کہ انسان کی خودی تلوار ہے اور اسے فساں یعنی تلوار تیز کرنے والی کسوٹی جو کہ لاالااللہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں خودی تلوار ہے اور لاالااللہ فساں ہے۔سخن فہمی اچھی بات ہے۔ ویسے تو باذوق اور سخن شناس شعر کا مزہ لیتے ہیں کہ لفظوں کے پار بھی بہت کچھ ہوتا ہے جس کا اظہار لفظوں میں نہیں ہو پاتا۔ ایسے ہی نہیں مومن کے سادہ سے شعر پر غالب نے کہا تھا کہ اس کے بدلے مومن اس سے پورا دیوان لے لے۔ شعر تھا: تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوگا یہ واقعہ سن کر ایک کند ذہن واقعہ سنانے والے سے پوچھنے لگا’’پتر ایہہ سودا ہو گیا سی کہ نہیں‘‘؟