ہر ذی روح کے اندر اپنی عزت اور احترام کا احساس ہوتاہے۔ اِس فطری احساس کے تحت کوئی فرد اپنی عزت اور وقار پر حرف آنے نہیںدیتا۔ چو رکو چو رکہنے پر چور بھی مشتعل ہوجاتاہے اور اس صحیح رائے کو بھی اپنی عزت پر حملہ سمجھتاہے اس لئے کہ آدمی اپنے کسی کام اور اپنی کسی بات کو غلط نہیں سمجھتا۔ اگر ایسا ہوتاتو وہ ہرگز ایسا کام ہی نا کرتاجسے وہ خود بھی جانتا ہے کہ وہ ایک غلط کام ہے۔ ایک صاحب ایک اسلامی ملک میں ہیروئین لیجانے والے اپنے ایک عزیز کے پکڑے جانے اور سزائے موت سنائے جانے پر احتجاج کرتے ہوئے اسے ایک غیر اسلامی فیصلہ قرار دے کر کہہ رہے تھے کہ قرآن میںہیروئین پر سزائے موت کہاں لکھی ہے؟ ہتک عزت پر دعویٰ دائر کرنے کا رواج دراصل مغربی دنیا سے ہمارے ہاں آیا ہے کوئی ایسا کام یا بات جو باقاعدہ طور پر کسی اچھی شہرت کے مالک شخص کے خلاف اگر کردی جائے اور اگر متاثرہ شخص ایسے شخص کے خلاف ضروری شواہد فراہم کردے کہ فلاں شخص کی فلاں حرکت سے ( جوتحریریا تقریر کسی بھی صورت میں) اُس کی اچھی شہرت کو ایسا دھچکا لگاہے جس نے اس کی کاروباری یا پیشہ وارنہ ساکھ کو اس طرح سے متاثر کیاہے کہ اسے کاروباری یا پیشہ وارنہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، تو وہ ایسے شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتا ہے۔ کوئی بھی عدالت ہتک عزت کے اس قانون کے تحت مدعی کو اسکے نقصان کے ازالے کے طور پر اس کاتجویز کردہ جرمانہ حاصل کرنے کیلئے احکامات جاری کرسکتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جانے انجانے میں وہ وہ کام کرتے رہتے ہیںجن سے دوسروں کی زندگی برباد ہوجاتی ہے جبکہ ہمیں اس بات پر شرمندگی تو کیا احساس تک نہیںہوتا ۔ وہ جو مثال ہے کہ مرغی اپنی جان سے گئی اور صاحب کو مزہ ہی نہیں آیا۔ بعض اوقات ہم اپنی کسی بات سے دوسروں کی عزت آبرو ، خلوص و محبت ،وضع داری اور رکھ رکھائو کے ساتھ ناصرف لاپرائی کے ساتھ کھیل جاتے ہیں او ر پھر اِس پراتراتے بھی ہیں یہ جانے بغیر کہ ہم کس بڑے گناہ یا جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے بعض واضح اور بد ترین گناہوں اور جرائم کو بھی گناہوں اورجرائم دونوں کی فہرست سے نکال رکھا ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میںایک دوسرے کا بات بات پرجس طرح مذاق اڑاتے ہیں اور پھر اسے پیار محبت ،دوستی یاری اور بے تکلفی کا نام دے کر قبول کرلیتے ہیں ، بالکل نہیںجانتے کہ بظاہر اس ہلکی پھلکی گفتگو نے کس کے لئے کتنا زہر اگل دیا ہے اور کیسے کسی کو ماردیا ہے۔ ہمیں ایسے گناہوں کا احساس کیوں نہیںہو تاجودن رات گھروں کے اندر ،دوستوں کی محفلوں، اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی راہداریوں میںگپ شپوں کے دوران ، عدالتوں کچہریوں اور عبادت گاہوں کے اندر،شادی بیاہ کی تقریبات میں حتیٰ کہ جنازے پڑھتے ہوئے اور میتوں کو دفناتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق میںوہ کچھ کرجاتے ہیں جس کا تصو نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ ہمیں ان باتوں کا احساس تک نہیں ہوتا کیونکہ ہم انہی با توں کو برا سمجھتے ہی نہیں۔ اسلئے کہ یہ سب باتیں ہمارے معمولات کا حصہ بن چکی ہیں ہم تو اپنے دین کو بھی اپنی مرضی سے اتنا محدود کردیاہے کہ ہمیں اسکی حددو میںرہنا برداشت ہی نہیں ہوتا ۔ ہم دوچار باتوں کے علاوہ یعنی رشوت ،آبروریزی ،شراب خوری اور سور کے گوشت کے کھانے کے باہر کسی اور بات کوگناہ ہی نہیں سمجھتے اور جنتا ان چیزوں یا باتوں کو گناہ سمجھتے ہیں وہ بھی ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے توپھر جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی؟ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’اگر تم ایک دوسرے کے بارے میںایک دوسرے کے خیالات معلوم ہوجائیں تو تم ایک دوسرے کو دفنانا بھی پسند نہیں کروگے‘ ‘ یہ فرمان تو ایک دوسرے کے بارے میںایک دوسرے کے چھپے ہوئے خیالات کے تحت ہے لیکن جس طرح ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران ہم ایک دوسرے کو مٹی میں ملا دیتے ہیں اس سے ہماری اندر کی غلاظت کھل کر سامنے آجاتی ہے اس کے باوجود ہمارے تعلقات قائم رہتے ہیں۔ ہنسی مذاق اورمیل جول جاری رہتاہے۔ طعنے بازیاں اور غیبتوں کا بازار گرم رہتاہے۔ دوسروں کو ننگا کرنے کے شوق میں خود ننگے ہوتے رہتے ہیں لیکن سمجھ نہیں پاتے کہ کیا کررہے ہیں ۔ ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا ہماری شام کی واحد تفریخ ٹی وی اسکرینوں پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کامشغلہ ہی رہ گیا ہے۔ ان کا تعلق عقل وخرد اور سنجیدگی سے کم اورایک دوسرے کو سرعام نیچا دکھانے سے زیادہ ہوتاہے ۔ ہمارا یہ انداز ہزرہ سرائی صرف گفتگو اور بحث مباحثوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بعض مشہورومعروف لکھاری بھی دوسروں کی عیب جوئی میںایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے خبط میں مبتلا رہتے ہیں ۔گھروں کے اندر اپنے ہی بہن بھائیوں اور عزیزواقارب سے لیکر دوست احباب اور پیشہ ور ساتھیوں تک دن کا آغاز اپنے مسلمان بھائی یا بہن کا گوشت کھانے یعنی غیبت سے شروع ہوکر غیبت پر ہی ختم ہوتاہے ۔یہ ایک ایسا مشغلہ ہے جس سے کوئی شاذونادر ہی بچتا ہو گا۔ ہم نے سارے دین کو نماز روزہ ،حج، زکوٰۃ تک سیکڑ دیا ہے ۔ساراد ن اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا رٹا الاپنے کے باوجود ہماری سمجھ اس سے آگے نہیں بڑھئی۔ قرآن واضح طور پر اعلان کرتاہے ۔ ’’ اے ایمان والوں تم ایک دوسرے کی تضحیک نا کرو،ممکن ہے جس کی تضحیک تم کررہے ہو وہ تم سے بہتر ہو۔ عورتیں بھی دوسری عورتوں کی تضحیک ناکریں ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں ۔ نا ہی کسی کو رسوا کرو ناہی نام بگاڑ کر ایک دوسرے کی توہین کرو۔ ایمان لانے کے بعد ایک بھائی کی بے عزتی کتنی بری بات ہے، اسکے باوجود جو لوگ نہیں پچھتاتے وہی غلطی پر ہیں ‘‘اتنے واضح احکامات کے بعد بھی اگر ہم ایک دوسرے کی تضحیک سے باز نہیں آتے تو پھر ہم کس قسم کے مسلمان ہیں؟ ہمیں آخرت میں ہتک عزت کے خوفناک انجام سے باخبر رہناچاہیے۔ ٭٭٭٭٭