سیاست اور جرم کا ساتھ دنیا بھر میں مستند مانا جاتا ہے۔وائٹ کالر کرائم یا جسے جدید اصطلاح میں آرگنائزڈ کرائم بھی کہا جاتا ہے ، دنیا بھر میں سیاست کا بائی پروڈکٹ ہے لیکن پاکستان اور بھارت میں یہ دھندہ عروج پہ ہے۔یہاں بات طرز سیاست کی نہیں ہورہی۔ وہ چاہے آمریت ہو یا پارلیمانی آمریت جس میں اکیاون فیصد کو انچاس فیصد پہ فضیلت حاصل ہوتی ہے، سیاست کی گود میں جرائم پلتے ہی ہیں۔ آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار بھارت کو دیکھ لیں۔بھارتی لوک سبھا میں ایک سے بڑھ کر ایک سکہ بند مجرم نظر آئے گا۔ وزیر اعظم مودی کے دامن پہ گجرات میں مسلمانوں کے خون کے داغ ابھی تازہ ہیں۔یہ بھی جمہوریت کے فضائل ہیں کہ گجرات کا قاتل دوسری بار پہلے سے بھی بھاری اکثریت سے راج سنگھاسن پہ براجمان ہو صرف اس لئے کہ اسے عوام کی حمایت پہلے سے زیادہ حاصل تھی۔بی جے پی کے اکثر ممبر پارلیمنٹ ایسے ہی جرائم میں ملوث ہیں جو زیادہ تر مسلم اقلیت کے خلاف باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرکاری سرپرستی میں انجام دیے گئے اور اس نے ان مجرموں کا ووٹ بینک کم نہیں کیا بلکہ اس میں اضافہ ہی کیا۔اعداد وشمار اس پہ گواہ ہیں کہ کس طرح آنے والے ہر انتخابات میں بھارتی لوک سبھا میں ایسے جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں پہلے سے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ 2014 میں بھارت میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمان میں 33فیصد ارکان فوجداری مقدمات یعنی قتل اغوا ڈکیتی عصمت دری،دہشت گردی وغیرہ میں ملوث تھے2009 ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی لوک سبھا میں تیس فیصد ممبران ایسے ہی نابغوں پہ مشتمل تھی جبکہ اس سے بھی قبل 2004ء میں ہونے والے انتخابات میں ایسے جرائم پیشہ افراد جو ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچے، چوبیس فیصد تھے ۔حالیہ بھارتی انتخابات میں جس میں مودی نے دوسری بار فقید المثال کامیابی حاصل کی،ایسے افراد کی تعداد چالیس فیصد تک پہنچ گئی ہے یعنی نو منتخب 543 ارکان پارلیمنٹ میں سے 233 سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ان میں بھارتی جنتا پارٹی کے 303 ارکان میں سے 116 جبکہ کانگریس کے 52 میں سے 29 کو مقدمات کاسامنا ہے۔بی جے پی اور اس کے انتخابی اکٹھ کی تو خیر کیا ہی بات تھی، کانگریس اور ترینمول کانگریس بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔مالیگاوں سانحے میں ملوث بی جے پی رہنما پراگیہ ٹھاکر اپنے کانگریسی حریف اور دو بار مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر کے مقابلے میں جیتی۔ قارئین کو علم ہونا چاہئے کہ مالیگاوں دھماکہ جمعہ کے روز حمیدیہ مسجد کے باہر ہوا اور اس میں چالیس مسلمان شہید اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔دہشت گردی کے اس واقعہ میں ملوث تمام مجرم ضمانت پہ رہا یا بری کردیے گئے،۔سیکولر بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث پراگیہ ٹھاکر ان میں سے ایک ہے جو لوک سبھا کی رکنیت سے لطف اندوز ہورہی ہے اور پورے پروٹوکول کے ساتھ عدالت میں حاضری بھی لگا رہی ہے۔یہی حال دیگر سنگین جرائم میں ملوث ارکان پارلیمنٹ کا ہے۔ بھارت میں سنجیدہ طبقے کے لئے یہ پریشان کن صورتحال ہے۔یعنی ایک ایسا سیاسی ماحول جہاں سرمائے اور طاقت کے گٹھ جوڑ سے مجرم پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں اور قانون سازی میں حصہ لیں۔جب اس گٹھ جوڑ پہ مذہب کا تڑکا لگ جائے تو ایسے افراد کو عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے سے کون روک سکتا ہے۔الیکشن لیکن صرف نعروں سے نہیں جیتے جاسکتے۔ اس کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے جو یہی جرائم پیشہ افراد مہیا کرتے اورمن پسند امیدواروں کو قانون ساز اسمبلی میں پہنچاتے ہیں یا بلا خوف پرسش و احتساب، خود پہنچ جاتے ہیں۔بھارتی لوک سبھا میں ایسے ارکان کی تعداد ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے جو دہشت گردی، قتل ، اغوا ،زمینوں پہ قبضے، مسلمانوں اور دلتو ں کے خلاف قتل عام اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہیں لیکن پوری ڈھٹائی کیساتھ لوک سبھا میں قانون کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں تاکہ اپنے ہی جیسے جرائم میں ملوث افراد کیخلاف قانون سازی کرسکیں۔ بھارت میں سنجیدہ طبقے کیلئے یہ پریشان کن صورتحال ہے۔سابق چیف جسٹس دیپک مشرا تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سیاست میں جرائم کی آمیزش قابل علاج ہی نہیں لیکن اس سے قبل کہ یہ جمہوریت کیلئے خطرہ بن جائے ، اس صورتحال کو تبدیل ہونا چاہئے۔دیپک مشرا اگر اسے جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیتے ہیں تو ان کا منشا صرف ایک ہے اور وہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ جمہوری عمل کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔وہ تو زور و شور سے جاری ہے۔خطرہ یہ ہے کہ عوام کے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں میں آنے والے افراد وہ ہیں جو خود عوام کے ہی خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ کہیں انہیں مذہب کی چھتر چھایا میسر ہے تو کہیں یہ خود قانون کے سرپرست بنے ہوئے ہیں۔پولیس انتظامیہ اور عدلیہ ان کی جیب میں ہے۔جب ایسے افراد مظلوموں کی گرد ن پہ پاوں رکھ کر ایوان اقتدار میں پہنچتے ہیں اور قانون کی پاسداری کا حلف اٹھا کرپورے پروٹوکول کیساتھ بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے اور میڈیا پہ بڑھکیں مارتے ہیں تو ان کے ظلم و ستم سے متاثرہ افراد کے دلوں پہ کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پھر چاہے جرم کسی ایک فردکیخلاف ہو، کسی مخصوص اقلیت یا عوام کے کسی گروہ کیخلاف ہو یا پوری قوم کیخلاف۔جلد یا بدیر اس کا رد عمل آتا ہی ہے۔ یہ منظر نامہ ہمارے لئے بھی نیا نہیں ہے۔ہم روز میڈیا پہ ان اراکین پارلیمنٹ کو جنہیں سنگین مقدمات کا سامنا ہے، پورے پروٹوکول کے ساتھ پیشیوں پہ آتے جاتے اور میڈیا کے رنگین مائیکوں پہ حکومت کو دھمکیاں دیتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اپنے لئے اس پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی آئین یا قانون میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔شہباز شریف، حمزہ شہباز، سعد رفیق پروڈکشن کیلئے ایسے بے چین ہوتے رہے جیسے اس سے قبل باقاعدگی سے سیشن میں شریک ہوتے رہے ہوں۔زرداری تو اس مقصد کے لئے کئی کمیٹیو ں کے رکن بنا دیئے گئے۔کیا عوام کو علم ہے کہ اس خلاف آئین و قانون پروڈکشن آرڈر پہ وہ ہمارے ہی خرچے پہ پارلیمان کے سیشن میں شریک ہوتے ہیں اور اس دن کی شمولیت کا معاوضہ عوام کے ٹیکس سے وصول کرتے ہیں۔ان ملزموں کا ٹی اے ڈی اے بھی میری آپ کی جیب سے جاتا ہے۔کیا وہ پارلیمان کے سیشن میں اس لئے شریک ہوتے ہیں تاکہ ہمارے لئے قانون سازی میں شریک ہوں جو ان کا بنیادی کام ہے ؟جی نہیں۔ وہ یہاں دھواں دار تقریریں کرنے اور دھمکیاں دینے آتے ہیں۔جب وہ آتے اور جاتے ہیں تو پروٹوکول اور میڈیا ان کا منتظر ہوتا ہے۔سزا ہوجائے تو جیل میں مراعات۔جب تک قانون ایک عام فرد اور ارکان پارلیمان کے لیے ایک نہیں ہوجاتا، جمہوریت کو خطرہ لاحق رہے گا، جسٹس دیپک مشرا تو یہی کہتے ہیں۔