موٹیویشنل سپیکر کا نام اب اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس شعبے سے منسلک بعض معروف لوگوں کا اب اگر اس نام سے تعارف کروائیں تو وہ اسے اچھا خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اپنا تعارف کئی اور بڑے عجیب سے مگر دلفریب ناموں سے کرواتے ہیں ۔ مثلاً وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کا تعارف بطور ’ لائف کوچ ‘ ، ’ سپرچوئل ہیلر ‘، ’ لائف ٹرینر ‘ و غیرہ کے طور پہ کروایا جائے ۔ اس تخصیص کا خیال نہ رکھا جائے تو ان میں سے بعض تو باقاعدہ ناراض ہو جاتے ہیں ۔ اس پہ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر کیسز میں یہ صرف نام کی ہی تبدیلی ہوتی ہے اور باقی معاملات وہی رہتے ہیں ۔ گویا نئی بوتل میں مشروب وہی پرانا ہی ملتا ہے ۔ فانی صاحب میرے ایک بہت قریبی دوست ہیں ۔بچپن اکٹھا گزرا ۔ سکول میں ساتھ پڑھتے رہے ۔ چند سال پہلے تک بالکل اچھے بھلے تھے ۔ ایک دم ٹھیک ٹھاک ۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا انہوں نے اپنا یو ٹیوب چینل بنا لیا ۔ ویڈیو کلپس آنا شروع ہوگئے ۔ پھر ایک دن پتہ چلا موصوف باقاعدہ موٹیویشنل سپیکر بن گئے ہیں ۔ بڑی حیرت ہوئی یعنی یوں بھی ہوتا ہے ۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ اب آپ ’ لائف کوچ ‘ بن گئے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے کچھ مذید مدارج طے کیے ۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ اس وقت اس شعبے کے کس درجے پہ فائز ہیں لیکن اصل حیرت کی بات یہ ہے کہ اُن کے فالورز کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوگئی ہے ۔پچھلے دنوں طویل عرصے کے بعد فانی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ تادیر گپ شپ رہی ۔ پھر اچانک انہوں نے ایک بڑی عجیب سی بات کی کہنے لگے ، میرے بیٹے کو آپ جانتے ہیں اب وہ دس گیارہ سال کا ہوگیا ہے ۔ آپ اس سے ملاقات کریں اور اسے کچھ سمجھائیں ۔ میں نے عرض کیا ، ’’ قبلہ ! کیوں شرمندہ کر رہے ہیں ۔ ایک زمانہ جناب کو فالو کرتا ہے اور آپ کے دل نشیں لہجے اور شیریں بیانی کا قائل ہے ۔ایسے میں یہ اہم ذمہ داری اس خاکسار کو سونپنا سمجھ سے باہر ہے ۔‘‘ لیکن انہوں نے کمال محبت سے التماس کے انداز میں دوبارہ بالاصرار کہا کہ یہ کام آپ نے ہی کرنا ہے۔آپ کا بھتیجا ذرا بھٹک گیا ہے اور اسے سمجھانا ضروری ہے ۔ خیر میں نے حامی بھر لی ۔ فانی صاحب کے صاحب زادے سے ملنا زندگی کی یادگار ملاقاتوں میں سے ہے ۔ملاقات قریب پندرہ منٹ رہی جس میں کوئی چودہ منٹ برخوردار اپنے قیمتی موبائل فون پہ مصروف رہے ۔ مشکل سے چند سیکنڈ ہی نظرِ التفات میری جانب رہی ۔ یہ نہیں کہ انہوں نے مجھے مکمل نظر انداز کیا وہ گیم کھیلتے ہوئے مجھ سے محوِ گفتگو بھی رہے ۔میں اس کوشش میں تھا کہ برخوردار توجہ کریں تو میں انہیں بڑوں کے ادب، اسلاف کی عظمت ، والدین کی فرمانبراداری، وقت کی قدردانی وغیرہ پہ ایک سیر حاصل لیکچر دوں اور انہیں بتائوں کہ ٹیکنالوجی کا طویل دورانیے کا استعمال انسانی صحت اور آنکھوں وغیرہ پہ کیا اثرات ڈالتا ہے ۔لیکن اس کی نوبت نہیں آئی ۔ البتہ دوسری طرف صاحبزادے نے جو گفتگو شروع کی وہ بڑی متاثر کُن تھی ۔ انہوں نے موبائل پہ کھیلی جانے والی ماڈرن ویڈیو گیمز کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ اور ان گیمز کے ہماری زندگی پہ پڑنے والے مُثبت اثرات سے مجھے روشناس کیا ۔ مجھے پوچھنے لگے ، ’’ آپ کو ’ ہیڈ شاٹ ‘ کا پتہ ہے ۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو انہوں نے مجھے کسی بھی فائیٹنگ گیم میں ’ ہیڈ شاٹ ‘ کی اہمیت سے آگاہی دی ۔ اس میں ٹارگٹ، شست ، انہماک جیسے نکات سمجھائے ۔ پھر بتایا کہ زندگی میں مقصد کے حصول اور ہیڈ شاٹ کی مہارت کے درمیان کتنا گہرا ربط ہے۔ پھر انہوں نے زپیان ون ، صابر باس اور سلطان پروسلو وغیرہ جیسے چند نام بتائے اور مجھ سے پوچھا کیا آپ ان عظیم شخصیات کو جانتے ہیں میں نے معذرت خواہانہ انداز میں دوبارہ اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ۔اس پر وہ طنزاً مسکرائے جیسے کہہ رہے ہوں کہ جہالت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔پھر بتایا کہ یہ ان فائیٹنگ گیمز کے بہترین پلیئر اور ہیرو ہیں۔ ان کے کئی ملین پرستار ہیں اور آج کی نوجوان نسل پر ان لوگوں کے بڑے احسانات ہیں۔ انہوں نے کمال شفقت سے مجھے ان گیمز کی کچھ بنیادی باتیں اور کھیلنے کے کچھ اہم گُر بتائے ۔ انداز اتنا ماہرانہ اور دلنشیں تھا کہ چند منٹ میں میں نے بہت کچھ سیکھ لیا ۔ پھر انہوں نے ان گیمز میں مشّاقی کے لیے ناصرف کچھ مذید طریقے بتائے بلکہ آئندہ راہنمائی کے لیے اپنی ہمہ وقت دستیابی کی نوید بھی سنائی ۔ اس پہ میں نے اُن کے لیے تشکّر کا اظہار کیا۔ آخر پہ انہوں نے مجھے کہا کہ میرے والد صاحب کو سمجھائیں کہ باتیں شاتیں بہت ہو چکیں وہ اب عملی طور پر کوئی سنجیدہ کام کریں ۔ یہ بڑی صائب تجویز تھی جس پر میں نے وعدہ کیا کہ میں اُن کے والد اور اپنے دوست کو یہ ضرور بتائوں گا ۔ میں نے وقت دینے اور اتنی اچھی راہنمائی کے لیے برخوردار کا شکریہ ادا کیا اور باہر آگیا ۔ میں کمرے سے نکل کر ڈرائینگ روم میں آیا تو مجھے ملازم نے بتایا کہ فانی صاحب کسی جگہ لیکچر دینے چلے گئے ہیں ۔ میں نے اپنا موبائل چیک کیا تو فانی صاحب کا میسیج آیا ہوا تھا ۔لکھا تھا ، ’’ ملک صاحب ! بہت معذرت ، مجھے آپ سے ملے بغیر نکلنا پڑا ۔مجھے دراصل ابھی ’’ ویڈیو گیمز کے تباہ کُن اثرات ‘‘ کے موضوع پر نوجوانوں کو موٹیویشنل لیکچر دینے جانا ایک نجی کالج میں جانا تھا ۔ معذرت ۔پھر ملیں گے ۔‘‘ گھر سے باہر نکلا تو شام کا دُھندلکا چھا تھا ۔ فانی صاحب کے گھر کی چھت پہ ایک بڑا سا مرکری بلب روشن تھا لیکن میں نے دیکھا اُس کے نیچے بالکل اندھیرا تھا ۔