آج سے ٹھیک ایک صدی قبل، عوام کی حاکمیت، آئین کی بالادستی، قومی ریاست کے پرچم کی سربلندی،وطن کے نام پر زمین کے ٹکڑوں کی حفاظت پر انسانوں کے قتلِ عام کا تقدس اور عالمی سودی مالیاتی نظام کی اجارہ داری جیسے آدرشوں کے ساتھ جس سرمایہ دارانہ جمہوریت اور قومی ریاستوں کے نظام کی بنیاد رکھی گئی تھی، گذشتہ ربع صدی سے اس کی سانس کی ڈوریں ٹوٹنا شروع ہوگئی تھیں۔ اب یہ آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ عالمی سودی مالیاتی نظام کے زیرِ سایہ جمہوری قوتوں کے درمیان، جب کاغذ کی جعلی کرنسی کی لڑائی اپنے عروج پر پہنچی تو اس جنگ نے سب سے پہلے قومی ریاستوں کی سرحدوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ وہ 27 ممالک جو جنگِ عظیم اوّل کے بعد یورپ کے بطن سے فوجی آپریشن کے ذریعے پیدا کئے گئے تھے، انہوں نے سب سے پہلے سرحدوں کی دیواریں توڑکر یورپی یونین بنائی اور پھر 2002ء میں تمام کرنسیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک ’’یورو‘‘ (EURO) کرنسی پر اکٹھے ہوگئے۔ اس لیئے کہ ان ممالک کو اس بات کا خوف لاحق ہوگیا تھا کہ اس عالمی سودی مالیاتی نظام کا سب سے بڑے عفریت ’’امریکہ‘‘کا ڈالر ان کو کھا جائے گا۔جنگِ عظیم دوم کے بعد تو ان سب نے ہی مل کریہ جال بُنا تھا کہ اب قوموں کو افواج کے ذریعے نہیں بلکہ معاشی طور پر غلام بنایا جائے گا، مگر اب سانپ اپنے ہی بچوں کو کھانے کے در پے ہو گیا تھا۔ گذشتہ سو سالوںمیں جس قدر قتل و غارت اور تباہی سرمایہ دارانہ سودی جمہوری نظام نے برپا کی ہے، انسان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں فرعون، نمرود ، چنگیز، سکندر، ہلاکو اور دیگر بادشاہوں نے مل کر بھی نہیں کی ہوگی۔ 1095ء سے 1291ء تک ایک سو چھیاسی سال جاری رہنے والی صلیبی جنگوں میں بھی اندازوں کے مطابق کم سے کم دس لاکھ اور زیادہ سے زیادہ نوّے لاکھ انسان مارے گئے۔ یہ انسانی تاریخ میں دو مذاہب کی سب سے خونی اور طویل جنگ سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جمہوری طور پر منتخب ہونے والے برطانیہ کے چرچل ، عوامی ووٹ سے جیتنے والے جرمنی کے ہٹلر اور جمہوریت کے پرچم بردار امریکہ کے صدور، روز ویلٹ اور ٹرومین نے صرف چھ سال یعنی یکم ستمبر 1939ء سے 3 دسمبر 1945ء تک کم از کم سات کروڑ انسان براہ راست جنگ میں ہلاک کئے اور جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط اور بیماریوں میں چھ کروڑ لوگ مارے گئے۔ سب سے مظلوم موت تو ان پچاس لاکھ انسانوں کی تھی جو جنگی قیدی بنائے گئے اور پھر بھوک ، بیماری اور بد سلوکی سے قید میں مار دیئے گئے۔ لیکن آج تک کسی نے جمہوری درندوں، چرچل، روز ویلٹ یا ٹرومین کو چنگیز یا ہلاکو نہیں کہا۔ کسی جمہوری حکمران کو ظالم، خونخوار، وحشی اور قاتل کے طور پر پیش نہیں کیاگیا۔ جمہوریت کا یہ بدنما چہرہ صرف اور صرف دانش وروں، تجزیہ نگاروں اور کارپوریٹ دنیا کی لوٹ مار کی آمدن سے چلنے والے میڈیا میں خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ عراق، افغانستان، ویت نام، انگولا اور دیگر ممالک میں جمہوری خونخوار اور وحشی حکوموتوں کی فوجیں ہی گھسی تھیں اور انہوں ہی نے وہاں کروڑوں انسانوں کا قتلِ عام کیاتھا۔ جنگیں تو دوسروں کے ملکوں کے انسانوں پر قتل و غارت مسلط کرنے کے لئے کی جاتی ہیںمگر اپنے ملکوں میں بھی اس جمہوری نظام کا عالم خوفناک ہے۔ آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں بسنے والی 15فیصد اقلیت یعنی بائیس کروڑ مسلمانوں سے کوئی پوچھے کہ تمہیں اس جمہوری نظام سے کیا ملا، ایک کروڑ کشمیریوں سے یہی سوال کرے ، اسرائیل میں بسنے والے 18 فیصد مسلمانوں سے سوال کرے کہ منتخب پارلیمنٹ کے زیر سایہ تم کیسی زندگی گذار رہے ہو، فرانس کے نو فیصد مسلمانوں سے پوچھے کہ تم میں چند عورتیں حجاب پہنتی ہیں اور پوری فرانسیسی قوم کی جمہوری طور پر منتخب حکومت تمہارے خلاف کیوں متحد ہو جاتی ہے۔ دنیا کے ہرجمہوری ملک میں بسنے والی مذہبی اور نسلی اقلیتوں کا عالم یہی ہے۔ یہ تمام اقلیتیں، اکثریت کی آمریت کے بدترین ظلم کا شکار ہیں۔ لیکن اس جمہوری مالیاتی نظام کو اس لئے زندہ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے نام پر دنیامیں تمام ظلم روا رکھا جا تا ہے۔ملکوں کے ملک اسلئے تباہ کر دیئے جاتے ہیں کہ عالمی طاقتیں وہاں جمہوریت، آئین کی بالادستی، انسانی حقوق کی فراہمی اور حقوقِ نسواں کی ضمانت کیلئے حملہ کرتی ہیں۔ عراق میں صرف ایک الیکشن کروانے کیلئے 19لاکھ انسان قتل کر دیئے جاتے ہیں۔ صرف ایک الیکشن کروا کر جمہوری حکومت کے قیام کیلئے۔ کتنی بڑی قیمت ہے اس جمہوریت کی۔ کیا دنیا میں کسی بھی مذہب نے اپنی حکومت کے قیام کے لئے کبھی اتنے لوگ قتل لئے۔ کسی ظالم خونخوار بادشاہ نے بھی ایک ملک فتح کرنے کے لئے کبھی اتنی قتل و غارت نہیں کی ہوگی۔ اس کے باوجود بھی جدید دنیا کا دانشور جمہوریت کو امن کی علامت اور انسانیت کی ترقی کی ضمانت بتاتاہے۔ پہلی جنگِ عظیم کی کوکھ سے دو نظاموں نے جنم لیا۔ ایک سرمایہ دارانہ جمہوریت اور دوسرا کیمونزم۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم میںیہ دونوں مخالف بھی علاقائی مفاد میں ایک دوسرے کے اتحادی بن گئے۔ جنگ عظیم دوم ختم ہوئی تو دونوں سرد جنگ کے نام پر پھر قتل و غارت کرنے لگے۔سرد جنگ کے ان پینتالیس سالوں میں کروڑوں انسانوں کے قتل کے بعد 1992ء میں کیمونزم دنیا سے رخصت ہوگیااور اب گذشتہ تیس سالوں سے دنیا پر صرف سرمایہ دارانہ سودی مالیاتی، جمہوری عسکری نظام کی حکومت قائم ہے۔ اب اس نظام کو بھی دنیا میں چیلنج ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ چیلنج اتنا بڑا نہیں ہے، لیکن اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ایک پلان کا حصہ ہے۔آج سے دو سال پہلے 2019ء میں پینٹا گون نے ’’انڈو پیسفک‘‘ پلان کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ایک بار پھر ابھرتے ہوئے کینسر ’’روس‘‘ اور پسماندگی کی جانب دھکیلنے والی قوت ’’چین‘‘ سے خطرہ ہے۔ اس پلان کے راستے میں ایک غیر مانوس شخص ڈونلڈ ٹرمپ آگیا تھا، جس کو ہٹا کر جوبائیڈن کو لایا گیا، جس کے آتے ہی، پلان پر تیزی سے عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔امریکی وزیردفاع ’’لائیڈ آسٹن ‘‘نے اپنے ایشیا کے دور کے اختتام پر کہا ہے کہ چین نے اپنے آپ کو عسکری طور پر جدید کر لیا ہے اور اب ہمیں دنیا میں قیام امن کے لئے اپنی افواج کو مزید طاقتور بنانا ہے تاکہ دنیا میں ہر ابھرتی غیر جمہوری قوت کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک بار پھر اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے دنیا کو جنگ میں جھونکنے کیلئے ’’چین‘‘ کا ہوّا کھڑا کیا جا رہا ہے۔ وہ چین جس کے پاس امریکہ سے 20گنا کم ایٹمی ہتھیار ہیں۔ جس کے پاس صرف چھ سو فائٹر جیٹ ہیں، جبکہ امریکہ کے پاس 2000 ہیں۔ امریکہ کے پاس دنیا میں 300فوجی اڈے ہیںجبکہ چین کے پاس صرف تین ہیں۔ بحری جنگی جہازوں میں امریکہ دگنی قوت رکھتا ہے جن میں سے گیارہ ایٹمی قوت سے چلنے والے جہاز ہیں۔ چین اپنی فوج پر 200ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے جبکہ امریکہ 737ارب ڈالر ۔ امریکہ کے فوجی اخراجات دس بڑے ممالک سے زیادہ ہیں جن میں فرانس، جرمنی، انگلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسی کا بجٹ 85ارب ڈالر ہے جو روس کے دفاعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سار ی فوجی قوت کے بادجود امریکہ افغانستان میں ذلت آمیز شکست سے دو چار ہوچکاہے۔ افغانستان میں دنیا بھر کی جمہوری قوتوں کی افواج کی تعداد ایک طالبان سپاہی کے مقابلے میں دس ہزار تھی۔ اس ذلت و رسوائی نے پوری دنیا کے سامنے اس عالمی جمہوری نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسے ایک نئے اعتماد کی ضرورت ہے۔ نو آبادیاتی طاقتیں اعتما دکھونے لگیںتھیں تو عالمی جنگیں شروع کی گئیںتھیں۔ اُس وقت ’’جرمنی‘‘ کو بہت بڑا ہوّا بنا کر پیش کیا گیا۔ اب چین کو ہوّا بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایک جنگ سر پر کھڑی ہے۔ مقصد واضح ہے، طالبان سے ملی ذلت کا خاتمہ اور جمہوریت کے نام پر بالادستی۔ پہلی دونوں جنگوں کے نتیجے میں دنیا بدلی تھی۔ نئے نظام آئے تھے، اس جنگ کے بعد بھی دنیا بدلے گی، نئے نظام آئیں گے۔ہمارا ایمان ہے کہ اس کے بعد اللہ کا اسلام کو غالب کرنے کا وعدہ پورا ہوگا۔