یہ جنرل ضیا ء الحق کے دورِ حکومت کے آخری دنوں کی بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان آ چکی تھیں اور جنرل ضیا کے خلاف پورے شدومد کے ساتھ بر سرِ عمل تھیں۔ یہ دور ہمارا پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کے زمانۂ طالب علمی کا بھی تھا۔ ایک دن اورینٹل کالج کی کنٹین پہ چائے پیتے ہوئے ہماری ایک خوب صورت اور ہر دل عزیز کلاس فیلو زاہدہ منظورنے اچانک اعلان کیا کہ کون کون ہے جو آج محترمہ بے نظیر بھٹو سے ون ٹو ون ملاقات کا خواہاں ہے؟ زاہدہ منظور چونکہ خود بھی ہماری کلاس کی بے نظیر تھی، اور ہم لوگ ایک دوسرے کے لیے بڑھ چڑھ کے تفریح کے مواقع ڈھونڈتے اور پیدا کرتے رہتے تھے۔ کبھی گلشن اقبال میں کسی کی سالگرہ اور کبھی شاہی قلعے میں کسی کے سکالرشپ کے پیسوںسے پارٹی۔ کبھی کسی لڑکی کے ہاں بھتیجے کی پیدائش پر ماڈل ٹاؤن پارک میں کھانا اور بوٹنگ اور کبھی کسی لڑکے کی طرف سے لبرٹی میں اجتماعی آئس کریم… عمر ہی ایسی تھی کہ ان دنوں تو کسی کلاس فیلو کے قریبی عزیز کا باجماعت افسوس بھی ہوتے ہوتے تفریحی دورے میں ڈھل جاتا تھا۔ ایسے میں ہمارے چند لوگوں پہ مشتمل گروپ نے اس آفر کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ محترمہ بے نظیر ان دنوں اپنی پارٹی سازی میں مصروف تھیں اور اس شام کی میٹنگ لبرٹی چوک کے قریب واقع پیپلز پارٹی کے ایک سر گرم رکن، بعد میں سینیٹر (غالباً گلزار نام تھا)کے گھر میں ہونا تھی۔ یہ بتاتا چلوں کہ زاہدہ منظور کا تعلق سوہنی کے شہر گجرات کے پی پی پی کے ایک جیالے سیاسی خاندان سے تھا۔ ان کی بڑی بہن شاہدہ منظور گجرات ہی میں پیپلز پارٹی کی خواتین کے امور کی صدر تھیں اور اس شام یہی شاہدہ منظور، چائے کی میز پر نہایت خوشگوار ماحول میں ہنستی کھلتی مس بے نظیر بھٹو سے ہم چند کلاس فیلوز کی اکلوتی ملاقات کا سبب بنی تھیں۔ اس شام پیپلز پارٹی کے تمام اہم ارکان وہاں جمع تھے۔ بعد کے حالات و واقعات اور ۱۹۸۸ء کے انتخابات سے اندازہ ہوا کہ اس اکٹھ میں بہت سے اہم سیاسی امور زیرِ بحث آئے ہوں گے لیکن سچ کہتا ہوں اس کھلنڈری عمر میں ہماری ساری دلچسپی اچھی چائے، مزے دار سنیکس اور محترمہ کے یونیورسٹی لائف کے حوالے سے بولے گئے چند روایتی جملوں تک محدود تھی۔ بعد میں محترمہ بے نظیر اور محترمہ شاہدہ منظور دیگر لوگوں کے ساتھ اپنی سیاسی میٹنگ میں مصروف ہو گئیں اور ہم لوگ نئی نئی لبرٹی سے آئس کریم کھا کر لفٹیں لیتے لواتے، لڑکیوں کو ان کے نیوکیمپس ہاسٹل میں چھوڑ کر واپس اپنے وولنر ہاسٹل کی جانب پلٹ گئے۔ میڈیا کے حوالے سے یہ پی ٹی وی کی حکمرانی کا زمانہ تھاجب نوجوانوں کے لیے معاشرے میں سر اٹھا کے چلنے اور دوستوں، رشتے داروں پر رعب جھاڑنے یا ڈینگیں مارنے والے اہم امور میں سے ایک امر، ٹی وی کے کسی بھی پروگرام میں معمولی سی شرکت اور بالخصوص پاکستان کے ہر گھر میں دیکھے جانے والے پی ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام ’نیلام گھر‘ کے انٹری پاس حاصل کر لینا بھی تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی زمانے میں پی ٹی وی کے ایک چھوٹے سے پنجابی پروگرام ’’پرکھ‘‘ میں بطور نوجوان اقبال شناس شرکت نے عزیز و اقارب میں ہماری قابلیت کی دھاک بٹھا دی تھی۔پھر طارق عزیز تو ان دنوں وطنِ عزیز کے تقریباً ہر گھرانے میں ایک قابلِ تکریم فرد کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اسے پی ٹی وی کا پہلا میزبان ہونے کا اعزاز حاصل تھا، وہ سیاست میں بھٹو کا قریبی ساتھی رہا تھا۔ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکا تھا۔ وہ سیاست دان تھا، اداکار تھا لیکن سیاسی اداکار نہیں تھا۔ وہ قومی لباس، قومی زبان اور قومی شعار کا چلتا پھرتا اشتہار تھا۔ نیلام گھر اصل میں صرف ایک انعامی پروگرام نہیں تھا۔ مختلف چینلز پہ لگنے والے آج جیسے انعامی تماشوں جیسا کوئی شعبدہ نہیں تھا۔ وہ تفریح کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اخلاقی، ادبی اور سماجی تربیت کا ایک ادارہ تھا ، وہ وطنِ عزیز سے محبت کا ایک پلیٹ فارم تھا۔ وہ موسیقی، کوئز، لاٹری، چھیڑ چھاڑ، رنگا رنگ شخصیات سے ملاقاتوں سے سجا ایک گل دستہ تھا۔ اس کے شعری ذوق نے ہم جیسے ادب میں منھ مارتے نوجوانوں کی بہت تربیت کی تھی۔ ٹی وی اینکری کی رنگا رنگ دنیا، جو آج کھیل تماشے ، فیشن اور بد تمیزی سے لتھڑی ہوئی ہے، اس کی بابت ہماری نسل کے لوگوں سے آج بھی پوچھا جائے تو وہ برملا کہہ اٹھیں گے کہ ایک مجھے تارڑ عزیز، اور ایک مجھے طارق عزیز!!! طارق عزیز کی اپنی شاعری سے ہمارا پہلا تعارف اپنے دوست اور روم ایٹ جمیل احمد عدیل کا سنایا ہوا یہ شعر بنا تھا جو ایم اے کے بعد شروع ہونے والے موہوم سے مستقبل کے تصور ہی سے دل چیر گیا: ؎ ہم وہ سیہ بخت ہیں طارقؔ کہ شہر میں کھولیں دکاں کفن کی تو لوگ مرنا چھوڑ دیں جن دنوں یونیورسٹی سے چل چلاؤ تھا ، اچھے اچھے کلاس فیلوز سے جدائی کے لیے مناسب الفاظ سوچے جا رہے تھے۔ الوداعی کارڈز، خطوط اور تحائف دیے جا رہے تھے، مجھے یاد ہے کہ ہماری ایک کلاس فیلو نے مجھے ایک کتاب گفٹ کی اور اس کے اوپر طارق عزیز کا یہ شعر لکھا: ؎ ہولی ہولی بھُل جاواں گے اِک دوجے دیاں شکلاں وی ہولی ہولی سِکھ جاواں گے زندہ رہن دیاں عقلاں وی یقین کریں یہ شعر پوری تاثیر کے ساتھ میرے اندر اتر گیا۔ اتنے اچھے اچھے دوستوں سے بچھڑنے کا تصور آنکھوں سے بہہ نکلا۔ مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ نیلام گھر اور طارق عزیزکے حوالے سے بھی ہمارا ٹوہر ٹپا زاہدہ منظور ہی کے کھاتے میں جاتا ہے، شروع میں نیلام گھر کے پاس حاصل کرنے کی وجہ سے اور بعد ازاں طارق عزیز کے ساتھ پی ٹی وی کے اسی مقبولِ عام پروگرام ’نیلام گھر‘ میں تا دیر معاون میزبان کے طور پر فرائض انجام دینے کی بنا پر ۔ اس کے بعد ہمارا یونیورسٹی کا یہ دل بہار ٹولہ ایم اے کر کرا کے اپنی اپنی نوکریوں اور شادیوں کی جانب قدم بڑھا گیا۔ زاہدہ منظور سے اخبار و رسائل میں چھپنے والے رنگا رنگ انٹرویوز میں ملاقات ہوتی رہی۔ جنوری ۱۹۹۳ء میں شیزان میں بانو قدسیہ کی صدارت میں ہونے والی میری کتاب ’’قلمی دشمنی‘‘ کی تقریب میں کمپیئرنگ کے لیے آئی۔ اور آخری خوش گوار ملاقات گجرات میںاس کی شادی پہہوئی۔البتہ اس کے بعد جناب طارق عزیز سے گاہے گاہے ملاقاتیں ادبی تقاریب میں ہوتی رہیں، جن میں الائیڈ بنک کی جانب سے جناب مشتاق احمد یوسفی کے اعزاز میں لاہور میں منعقد ہونے والی تقریب اور پھر الحمرا میں جناب عطاء الحق قاسمی کی طرف سے منعقدہ کانفرنس میں ہونے والی خوشگوارملاقاتیں ہی یاد ہیں۔ جس طرح ہمیں اپنے شاعروں ادیبوں میں سے اشفاق احمد اور احمدعقیل روبی کی داستان گوئی، ڈاکٹر ذاکر نائیک، ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا طارق جمیل کی ایمان گوئی پسند ہے ، اسی طرح طارق عزیز کی پاکستان گوئی بہت عزیز تھی۔ وہ ایک کامیاب انسان، ایک مزے دار شاعر، ایک اداکار، ایک براڈ کاسٹر، ایک اینکر، ایک انٹرٹینر، ایک مصلح، ایک سیاست دان، جس کی زندگی میں سیاست سب سے برا تجربہ تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ کہ وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا باقاعدہ حصہ رہنے کے باوجود عمران خان ہی کو اس ملک کا نجات دہندہ سمجھتا تھا۔