گزشتہ رو ز ایک روزنامہ میں سینئر صحافی کا کالم ڈاکٹر خیال امروہوی کے حوالہ سے نظر سے گزرا تو ڈاکٹر خیال امروہوی کے ساتھ گزرا وقت یادآگیا،یہ نہیں کہ اِن کی یاد کبھی محو ہوئی ہو،تاہم مذکورہ کالم کی خواندگی نے تیز ہوا کے جھونکے کی مانند یادوں کا دروازہ کھول دیا۔ڈاکٹر خیال امروہوی لیہ کے جس محلے میں رہائش پذیر تھے،وہ لیہ کا غریب ترین محلہ تھا۔یہ درحقیقت ذوالفقارعلی بھٹو کی ’’پانچ مرلہ سکیم ‘‘والا محلہ تھا۔جس دَور میں خیال صاحب نے یہاں سکونت اختیار کی ،ریت کے ٹیلے اور سرکنڈوں کے جھنڈ وں کے ماسوا کچھ نہ تھا۔یہ وہ زمانہ تھا،جب خیال صاحب لیہ کالج میں پڑھاتے تھے اور مارکسی دانش کا پرچارکرتے تھے۔اُنیس سوچھیانوے ستانوے میں ،مَیں جب میٹرک میں تھا،تب سے خیال صاحب کو دیکھتا چلا آرہاتھا۔ہم لڑکے اِن کے گھر کے سامنے کرکٹ کھیلتے تھے۔خیال صاحب سردیوں کے دِنوں میں صبح سویرے چارپائی باہر ڈال کر بیٹھے ہوتے۔وہ ہمیں پڑھتے اور لکھتے ہوئے ملتے۔جبکہ گرمیوں کے دِنوں میں عصر کے بعد ،جب ہم کرکٹ میدان کی جانب جاتے ہوئے اِن کے گھرکے پاس سے گزرتے تو وہ سائیکل کو بائیں جانب سے تھامے ،گھر کے گیٹ سے باہر نکل رہے ہوتے۔خیال صاحب گیٹ سے نکلتے وقت چہرے کو تھوڑا اُوپر کرکے ،سامنے دُور تک دیکھتے ،پھر سولنگ پر سائیکل تھام کر پیدل ہو لیتے۔ سردیوں کی سہ پہر میں بھی یہ گھر کو چھوڑکر شہر کی اُور ہولیتے ،یہ اِن کا معمول تھا،اس معمول میں خلل اُن دِنوں پڑتا،جب اِن کے گھر میں کوئی ادبی و علمی نشست ہوتی،یا پھر اِنھیں کسی علمی و ادبی نشست میں جاناپڑجاتا۔دوہزارایک دو میں ،جب مَیں بی اے میں تھا،تب خیال صاحب سے ملاقاتیں ہوناشروع ہوئیں۔چونکہ میرا گھر اِن کے گھر سے چند گلیوں کے فاصلے پرتھا،تو روزانہ کی بنیاد پر ملاقات ہوتی ۔ اگر کسی نشست میں جانا ہوتا تو مَیں اِن کے ساتھ جاتا اور واپسی بھی ایک ساتھ ہوتی۔ہفتہ بھر میں ایک آدھ بار ،چند سینئر دوستوں کے ساتھ ،جن میں عموماً دانشور منوربلوچ مرحوم، معروف سرائیکی شاعر منظور بھٹہ، یاسین بھٹی ، معروف شاعر کاشف مجیدکے ساتھ ،اِن کے ہاں آتا رہتا۔اِن کے پاس سبطِ حسن،علی عباس جلال پوری اور غلام احمد پرویز کی کتابیں ایک ترتیب کے ساتھ پڑی ہوتیںاور بھی ترقی پسند شعراو اُدبا کا لٹریچر موجود ہوتا۔ آج مَیں سوچتا ہوں کہ خیال صاحب حیات ہوتے اور اُسی محلہ میں رہائش پذیر ہوتے اور سہ پہر کے سائے ڈھلتے ساتھ گیٹ سے باہر نکلتے ،چہرہ تھوڑا اُوپر کرکے سامنے دُور تک دیکھنے کی کوشش کرتے تو اِن کی نگاہیں ،سامنے کی دیوار سے ٹکرا کر رہ جاتیں اورسائیکل تھامے سولنگ پر کیسے چڑھتے؟کہ محلے کی اُس گلی سمیت ساری گلیاں، نالیوں اور گٹروں کے پانی سے بھری رہتی ہیں،وہاں سے گزرنے والوں نے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اینٹیں رکھی ہوئی ہیں ،جن کے اُوپر سے شلواریں اُونچی کرکے گزرتے ہیں۔اگر کسی طورخیال صاحب صحیح سلامت وہاں سے گزرہی جاتے تو مرکزی سڑک جو کہ شہر کی اُور جاتی ہے ،پر قدم ہی نہ رکھ سکتے،سڑک پر بڑے بڑے گڑھوں میں گٹروں کا پانی ہمہ وقت کھڑا رہتا ہے،چنگ چی رکشے گڑھوں میں پھنسے رہتے ہیں،ٹریکٹر ٹرالیاں گزرتی ہیں تو گندہ پانی دُکانوں کی جانب اُچھل پڑتا ہے۔خیال صاحب تو بہت نفیس انسان تھے۔وہ کیسے گھر سے نکلتے اور شہر کی جانب جاتے اور شہر کے مختلف ہوٹلوں پر ساری رات بِتا کر صبح کے اُجالے سے قبل گھر کو لوٹتے؟اور اگر خیال صاحب حیات ہوتے تو محلے میں جرائم پیشہ افراد کی بہتات میں رہ پاتے؟جس شخص نے اُس محلہ کو علمی درجہ دینے کی کوشش کی ، افسوس !وہ جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ دوہزار تین چار سے اِن کی وفات تک ،میری متعدد ملاقاتیں رہیں۔خیال صاحب ماہِ رمضان میں یا پھر محرم الحرام میں اِمام بارگاہ آتے ،میرا گھر امام بارگاہ سے متصل تھا،وہاں ملاقات ہوجاتی ۔جمشید ساحل کے دفتر میں دوپہر کو ،خیال صاحب ہفتہ میں دوتین دِن پائے جاتے ،میرا بھی یہاں آنا جانا لگارہتا،دوپہر کا کھانا ہوٹل پر ایک ساتھ کھاتے۔جمشید ساحل جو کہ خودلکھتے پڑھتے ہیں ،سے خیال صاحب کا قریبی تعلق تھا،یہ جمشید سے اپنی نجی اور گھریلوزندگی کی بابت بھی ڈسکس کرتے تھے۔خیال صاحب کا جس شخص نے سب سے زیادہ احترام اور خدمت کی ،وہ جسارت خیالی ہیں،جسارت خیالی ،پہاڑ پورمیں رہتے ہیں ،گرمیوں میں خیال صاحب چند دیگردوستوں کے ہمراہ وقفے وقفے سے چند ایک راتیں جسارت خیالی کے ہاں گزارتے۔جسارت صاحب اِن راتوں کا خصوصی اہتمام کرتے ،کوٹ اَدو لیہ روڈ پر پہاڑ پور میں سڑک کنارے ہوٹل میں رات جاگنے کا اہتمام کیا جاتا۔رات بھر اَدبی موضوعات زیرِ بحث رہتے۔صبح دَم لیہ کو واپسی ہوتی۔ جسارت خیالی نے خیال صاحب کا ہر طرح خیال رکھا۔خیال صاحب کی کتابیں مرتب کیں،زماں سے لازماں تک ،کے عنوان سے یادداشتیں لکھیں۔جسارت خیالی ،خیال صاحب کے نہایت مؤدب شاگرد ہیں،اِن کے علاوہ ،لیہ میں ریاض راہی ،جو کہ معروف شاعر اورلیہ کالج میں اُردو کے اُستاد ہیں ،نے خیال صاحب پر مقالہ لکھااور خیال صاحب کی فکر کو اپنی شاعری کے ذریعہ عام کرنے کا بیڑا بھی اُٹھارکھا ہے۔اسی طرح افضل صفی ،جن کا تعلق فتح پور سے ہے ،یہ اِن دِنوں کروڑ کالج میں اُردو کے اُستاد ہیں،خیال صاحب کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔یہ بھی خیال صاحب کی فکر کو اپنی شاعری میں سموئے ہوئے ہیں۔دائرہ دین پناہ سے گفتار خیالی مرحوم ،خیال صاحب کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے ۔ مجھے خیال صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،لیکن سچ تو یہ ہے کہ مَیں اُس وقت عمر کے بائیسویں سے تیسویں برس میں تھا،اِن کو زیادہ پڑھ نہ سکا،جو کچھ پڑھا،اُس کو سمجھ نہ سکا،لیکن اِن کی باتوں سے خیالات کو جاننے کا بہت موقع ملا۔اُس زمانے میں ،اِن کی کتاب نئی سوچ اور سوشلزم اور عصری تقاضے ضرورپڑھ لی تھی ۔لیہ کے زیادہ تر اساتذہ اور شاعروں ،ادیبوں اور سوچنے والوں کو خیال صاحب کی فکر نے متاثر کیا۔گذشتہ عرصہ میں ،مَیں نے خیال صاحب کی چند ایک کتب کا بہ غور مطالعہ کیِا۔اِ ن کو فکر کو کیسا پایا،اس پھر کبھی بات ہوگی۔