گزشتہ برس ماہنامہ ’قومی زبان‘ میں میرا مضمون ’ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی ایک محقق، ایک خاکہ نگار‘ چھپا تو اس کے چند روز بعد ڈاک میں ایک پیکٹ موصول ہوا، جو ایک خوبصورت کتاب اور ایک بے دھڑک خط پر مشتمل تھا۔ کتاب، سید انیس شاہ جیلانی کے خاکوں کی دو کتابوں’آدمی غنیمت ہے‘ اور ’آدمی آدمی انتر‘ کا مرکب تھی، جسے جناب راشد اشرف نے محبت سے مرتب کیا ، اور خط انیس شاہ جیلانی کے صاحبزادے سید ابو الفضل شاہ کا۔انداز ملاحظہ ہو: ’’آپ کا مضمون خاکہ نگاری کے حوالے سے دلچسپ ہے، لیکن اس میں ایک کمی رہ گئی ہے، وہ یہ کہ آپ نے بابا سید انیس شاہ جیلانی کی کتاب ’آدمی غنیمت ہے‘ کا کہیں ذکر نہیں کیا۔‘‘ خاکہ میرا دل پسندموضوع ہے، خود بھی لکھتا ہوں اور شاہد حنائی کی مانند خاکے کی کتاب جب، جیسے،جہاں کی بنیادوں پر حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہوں۔ سوا تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب تو گھر بیٹھے ہاتھ لگی تھی، جسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ یادوں، یادداشتوں اور ادب کی بھولی بِسری شخصیات کی زندگیوں کے دَر وا ہوتے چلے گئے۔ کتاب کے مطالعے ہی سے کھلا کہ سید انیس شاہ، سید مبارک شاہ جیلانی کے صاحبزادے ہیں، جنھوں نے صادق آباد کے سندھ کی سرحدوں کو چھوتے ہوئے ایک چھوٹے سے گاؤں ’محمد پورہ‘ میں ایک کتب خانہ ’مبارک اُردو لائبریری‘ قائم کیا۔ گاؤں میں مشاعروں کا اہتمام کیا، اُردو کی خدمت کے لیے تمام عمر کوشاں رہے۔ جید علما، شعرا،ادبا بالخصوص نیاز فتح پوری اور ریاض خیر آبادی سے گہرا اور سنہرا تعلق رہا، آموں کے بڑے بڑے درختوں کے نام نہرو اور گاندھی، جب کہ پوتوں کے نام ابوالکلام اور غالب کے ناموں پہ رکھے۔ ان کا ناک نقشہ ان کے بیٹے ہی کی آنکھوں سے دیکھیے: ’’چہرہ کتابی، نوکیلی چبھتی ہوئی ناک، نکلتا ہوا قد، بھاری ڈیل، کشادہ پیشانی، زیادہ کشادگی فارغ البالی کی وجہ سے بھی آ گئی تھی اور بھلی لگتی تھی۔داڑھی خشخشی، بزرگوں کی روایت پر کاربند مونچھیں اور پٹے، کلّے بھرے ہوئے۔ گندمی رنگ عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتا گیا۔ آنکھیں چھوٹی مگر چمک دار، آنکھوں سے یاسیت آمیز رومانیت ٹپکتی تھی۔ تہبند اور بغیر کالر کی قمیض لباس تھا، شلوار بھی پہنی جب آتش جواں تھا۔ طبعاً اُردو تھے ، اس لیے بچوں پر کُرتے پاجامے کی قید لگا دی۔‘‘ اب ذرا کتاب کے مصنف سید انیس شاہ جیلانی کا حدود اربعہ اُن کے بیٹے سید ابو الحسن شاہ جیلانی کی زبان سے سنیے: ’’ کتابیں ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں، خاکہ نگاری اور خط نویسی میں کمال حاصل تھا۔ لگی لپٹی رکھے بغیر لا دھڑک حق سچ لکھتے۔ رکھ رکھاؤ میں ننگی تلوار، ان کی حق گوئی نے بہتوں کی پیشانی پر بل ڈالے۔ منافقت سے کوسوں دور، بقول جون ایلیا: جو دیکھتا ہوں ، وہی لکھنے کا عادی ہوں مَیں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں فسادی مگر بابا نہ تھے، ہاں ان کے قلم کی کاٹ سے لوگ تلملاتے ضرور تھے۔ خوش خط اور خوش کلام تھے۔بلند آہنگ آواز، مُشک بار قہقہے اور شخصیت میں ایک طنطنہ۔ محفل میں نمایاں اور یکتا، با رعب اور پُرکشش، جو اُن کی بزم سے اٹھتا پریشاں نہیں مسکراتا جاتا۔ منٹو کی طرح جرأتِ گناہ کے قائل، ضبطِ نفس سے مگر روحانی بلندی اور بالیدگی کے قائل۔ بچپن رئیس احمد جعفری کے گھر میں گزرا، جوانی رئیس امروہوی کی خوشہ چینی ، شکیل عادل زادہ، جون ایلیااور زاہدہ حنا کی محفلوں اور سید محمد تقی کی فلسفیانہ موشگافیوں کو سننے سمجھنے میں گزاری۔ اُردو ایسی بولتے گویا دلی کے روڑے ہوں۔‘‘ سید انیس جیلانی نہ صرف ادبی ماحول میں پلے بڑھے بلکہ نہایت کثیرالمطالعہ بھی تھے۔ انھی کے بقول ’طے کر لیا تھا کہ دو تین سو صفحے کی ایک کتاب روزانہ پڑھی جائے گی‘ اسی طوفانِ مطالعہ میں فسانۂ لندن سے مقدمہ ابنِ خلدون تک چاٹ گئے۔ شاعروں ادیبوں پر ان کے تبصرے بھی اپنی نوعیت کے ہیں۔ انداز کچھ اس طرح کا… اختر شیرانی کیا رگِ جاں کے قریب کا شاعر تھا … منٹو کا برا ہو، نیندیں اس نے بھی حرام کر دیں … دت بھارتی، نسیم انہونوی اور وہی وہانوی کے پردے میں شوکت تھانوی کے لذت خیز جنسی تگڈم، ایک منصوبہ کچے ذہنوں اور اٹھتی جوانیوں کو خستہ اور خراب کرنے کا وہ بھی تھا … عطیہ فیضی کے فریب خوردہ تنہا شبلی، اقبال اور ابوالکلام ہی نہیںتھے، نیاز فتح پوری بھی تھے … ایسے متلون مزاج اور متنوع مطالعہ شخص کا یہ اعترف بھی معنی رکھتا ہے: ’’سچی بات یہ ہے کہ سب سے مزے کی کتاب قرآن ہی ہے۔ لگی لپٹی رکھے بغیر اگر کسی نے لکھا ہے تو کاتبِ تقدیر نے۔ کوئی تکلف، کوئی تصنّع نہیں، درخت کو پلنگ اور کرسی کو جھاڑو نہیں بتایا گیا۔ کوئی پاکستانی اگر بے خیالی میں بھی ایک بار پڑھ ڈالے تو مسلمان ہو جائے۔پوری انسانی تہذیب و ثقافت ہی نہیں تاریخ بھی بھری پڑی ہے، زندگی کرنے کے گُر الگ، یہ کتاب حرفِ آخر ہے۔‘‘ ’آدمی غنیمت ہے‘ میں حیرت شملوی، شاہد احمد دہلوی، نیاز فتح پوری، قاضی احسان احمد شجاع آبادی، ضیاالدین احمد برنی، رئیس احمد جعفری، مولانا غلام رسول مہر، سید مبارک شاہ جیلانی، رئیس امروہوی، ماہرالقادری، زاہدہ حنا اور ڈاکٹر محمد ایوب قادری کے نہایت تفصیلی اور چٹ پٹے خاکے ہیں۔ رئیس احمد جعفری کا تو ایسا خاکہ لکھا ہے کہ منٹو کان پکڑے، عصمت چغتائی پانی بھرے اور واجدہ تبسم مجرا بجا لائے۔ اُن تینوں کے ہاں تو فکشن، فحاشی اور بے پردگی کو ڈھانپ لیتا ہے لیکن یہاں تو سفاک اور ننگی حقیقتیں منھ کھولے کھڑی ہیں۔ مولانا غلام رسول مہر کے خاکے کو بھی ہم اُردو کے شاہکار خاکوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ کتاب کے آخر میں ’’ایک بیراگی… انیس شاہ جیلانی‘‘ کے عنوان سے جناب محمد خالد اختر کا تحسین آمیز مضمون بھی شامل ہے۔ اسی طرح ’آدمی آدمی انتر‘ میں ابوالکلام، اثر لکھنوی، ارشد تھانوی، اختر علی خاں، اختر جونا گڑھی، امتیاز علی تاج، تمکین کاظمی، جواہر لال نہرو، جگر مرادآبادی، چراغ حسن حسرت، حاجی لق لق، زاہد شوکت علی، سید سلیمان ندوی، شوکت تھانوی، ظفر نیازی، نذر سجاد حیدر اور نریش کمار شاد کے نہایت مختصر اور تیکھے خاکچے شامل ہیں۔ ان کے نزدیک خاکے کی تعریف یہ کہ ’لفظوں کے سہارے کسی چلتی پھرتی شخصیت میں صفحۂ قرطاس پر جان ڈال دینا۔ ‘ ان کے نادر اور بے دھڑک اسلوب کے چند نمونے: ابوالکلام: آج تک یہ کسی نے نہیں بتایاکہ ان کے سینے میں بھی دھڑکتا ہوا سیماب وش دل بھی تھا۔ مولوی عبدالحق: نیاز کے بقول ان کا مذہبی مسلک اٹکل پچو تھا۔ رئیس امروہوی: زیادہ نہیں کم کھاتے ہیںمگر ٹوٹتے ندیدوں کی طرح ہیں۔ چاروں پانچوں انگلیاں لتھڑی ہوئی بلکہ آستین بھی شریکِ خورد و نوش۔ جگر: کتابی چہرہ، تل چاولی داڑھی، زلفیں بڑھی ہوئی اور پریشان، پینے کا سلسلہ رکتا ہی نہیں تھا۔ جون ایلیا: جون نے شادی اپنی پسند زاہدہ حنا سے کی اور رئیس نے مجھے چبھتے ہوئے لفظوں میں لکھا: لڑکی جہیز میں اور تو کچھ نہیں لائی کتابیں ہی کتابیں ہیں…اِچھن، بَچھن، چھبن، جَون ان چاروں میں اچھا کون؟ کلامِ لق لق: مَیں تِرے حسن پہ قربان ہونے والا ہوںنہیں قبول تو جا ! حکمِ امتناعی لا ! انیس شاہ کی من موجی اور دبنگ طبیعت کی بنا پر حاسدین نے جس طرح انھیں ادبی تذکروں سے باہر رکھا، ان پر یہ شعر واقعی صادق آتا ہے: تم نے پھینکا ہے جسے زیست کی پچھلی صف میں سب سے اونچا تو اسی شخص کا سر لگتا ہے