احباب مسلسل ایک سوال پوچھے جا رہے ہیں۔قدم قدم پر عمران خان کے وعدے خزاں کے پتوں کی طرح بکھرے پڑے ہیںاور سیاست کے جن روایتی کرداروں کے خلاف انہوں نے جدو جہد شروع کی ہے وہی سارے کردار آج تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کیا اب بھی عمران خان کو ووٹ دیا جانا چاہیے؟ اس سوال کا جواب کچھ آسان نہیں ۔میں ہی جانتا ہوں اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں ، میں شعوری اذیت کے کس طویل مرحلے سے گزرا۔ تاہم اب میں ایک نتیجے پر پہنچ چکا ہوں اور میرے نزدیک اس کا جواب بہت سادہ ہے ۔ اور جواب یہ ہے کہ بے شک عمران کے وعدے خزاں کے پتوں کی صورت بکھر گئے اور سیاست کے جن روایتی کرداروں کے خلاف عمران نکلا تھا وہی کردار آج اس کی جماعت میں معتبر بنے بیٹھے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اگر کسی نے کبھی تبدیلی کی خواہش کی تھی اور عمران خان سے کبھی کسی درجے میں حسن ظن رکھا تھا تو اسے عمران خان کو ووٹ ضرور دینا چاہیے۔میں کیوں اس نتیجے پر پہنچا، میں عرض کر دیتا ہوں۔ پہلے اصول کی بات کرتے ہیں اس کے بعد حکمت عملی پر غور کریں گے۔اس وقت ملک میں دو قوتیں ہیں۔ ایک طرف مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی وغیرہ ہیں۔ یہ تسلسل کی دعویدار ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ہم نے پہلے بھی بہت کچھ کیا ہے ، ہم ناکام نہیں ہوئے ، ہم نے دودھ کے کنویں اور شہد کی نہریں کھود ڈالی ہیں اور ہم آئندہ بھی اسی طرح کریں گے۔ دوسری طرف تحریک انصاف ہے اس کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوتا آیا ہے ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں۔یہ ظلم ہے اور ایک واردات مسلسل ہے۔ ہمیں اس واردات کو روکنا ہے۔اب جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو اسی طرح چلانا چاہیے جیسے یہ اب تک چلتا آیا ہے وہ گویا تسلسل کے قائل ہیں۔ ایسے لوگوں کا انتخاب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی ہونا چاہیے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نہیں بہت ہو چکا اب ملک کے ساتھ مزید واردات نہیں ہو سکتی وہ گویا تبدیلی چاہتے ہیں ۔تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں کے لیے فی الوقت تحریک انصاف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اس بنیادی اصول کے بعد اب آئیے حکمت عملی کی جانب۔حکمت عملی کے باب میں تحریک انصاف ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ وہی روایتی چہرے چن چن کر انہیں ٹکٹ دے دیے گئے۔ عمران کے دائیں بائیں بھی عمران کی اپنی ٹیم کے لوگ نظر نہیں آتے دوسری جماعتوں سے آنے والوں کا قبضہ ہو چکا۔میں اس صورت حال پر مسلسل لکھ رہا ہوں اور یہ صورت حال بہت پریشان کن ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کوئی اس اصولی بات سے متفق ہے کہ ہمیں تسلسل کی نہیں تبدیلی کی ضرورت ہے تو اصول کو حکمت عملی کے مسائل اور پیچیدگیوں پر فوقیت دی جانی چاہیے۔ ضروری نہیں ہم اس سے متفق ہوں لیکن عمران خان کا ایک موقف ہے۔ اس کا کہنا ہے سیاست اقوال زریں سنانے کے لیے نہیں کی جاتی۔ سیاست اقتدار میں آ کر ملک کے لے کچھ کر گزرنے کی کوشش کا نام ہے۔اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماج کی ساخت ایسی ہے کہ روایتی سیاست دانوں کو ساتھ ملائے بغیر یہاں انتخابی معرکہ جیتنا ناممکن ہے۔عمران کا یہ موقف اگر چہ ان کے ابتدائی موقف سے مختلف ہے ، یہ ان کے نعرے سے بھی متصادم ہے، یہ ان کے خوابوں کے بھی الٹ ہے لیکن بہر حال اس میں ایک وزن ہے۔ سماج کی فکری حالت ہمارے سامنے ہے۔ ابھی کل ہی سرگودھا میں مسلم لیگ ن کے محسن شاہ نواز رانجھا کے لوگوں نے ، کہا جا رہا ہے کہ، تحریک انصاف کے ایک نوجوان کی انگلی کاٹ ڈالی۔ میں خود ناقد ہوں کہ یہاں سے عمران خان نے اسامہ غیاث میلہ کو ٹکٹ کیوں دیا لیکن میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوں کہ یہاں سے عمران نے غیاث میلے کے بیٹے اسامہ کی بجائے پروفیسر اسامہ یا ڈاکٹر اسامہ کو ٹکٹ دیا ہوتا تو کیا خود اس کی اپنی انگلیاں محفوظ رہ پاتیں اور وہ رانجھا صاحب کا مقابلہ کر پاتا؟شاہ نواز رانجھا کے بیٹے کے کارندوں کے سامنے غیاث میلہ کا بیٹا تو کھڑا ہو سکتا ہے ، پروفیسر ڈاکٹر کا بیٹا شاید کھڑا نہ ہو سکے۔سماج میں انصاف ناپید ہے۔ تھانوں میں جو ہوتا ہے آپ کے سامنے ہے۔معاشرہ ان بالادست طبقات کی گرفت میں ہے۔جب تک معاشرہ اس گرفت سے نہیں نکلتا ، محض اخلاقی برتری پر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ جیتنا تو رہا ایک طرف شاید لڑا بھی نہیں جا سکتا۔ زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے مثالی صورت حال کی خواہش ضرور کرنی چاہیے اور مقصد بھی وہی ہونا چاہیے ۔لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے۔جو ہم چاہتے ہیں اور جس کی ہم نے تمنا کی ہوتی ہے ضروری نہیں ہمیں وہ مل بھی جائے۔ عمران کے معاملے میں مثالی صورت حال تو یہی تھی کہ اس کے سارے امیدوار صاف شفاف ہوتے۔ کوئی ن لیگ ، ق لیگ ، یا پیپلز پارٹی سے نہ آیا ہوتا ۔لیکن امکانات کی دنیا میں دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ہم ایسے امیدواروں کو سنجیدگی سے لیتے؟معاشرہ اگر غلامی کے طوق گلے سے اتارنے کے قابل نہیں اور کسی نے اس کی شعوری تہذیب نہیں کی تو اس کی تعزیرکا کوڑا عمران خان کی کمر پر کیوں برسایا جائے۔مجھے آج بھی یاد ہے گائوں سے ایک عزیز کا فون آیا۔ ساتھ ہی اس نے چڑھائی کر دی۔ ’’ یہ عمران خان کا دماغ خراب ہو گیا ہے اس نے رب نواز لاہڑی کو ٹکٹ دے دیا۔ اسے کوئی اور آدمی نہیں ملا تھا۔ لعنت ہے ایسی تبدیلی پر‘‘۔جب وہ اپنا غصہ نکال چکا تو میں نے اس سے پوچھا اچھا یہ بتائو تم ووٹ کس کو دے رہے ہو؟ کہنے لگا ’’ آپ کو تو پتا ہی ہے ہم تو لاہڑی کے ووٹر ہیں ، وہ جس پارٹی میں بھی ہو ہم تو اسی کو ووٹ دیں گے‘‘۔اب اگر ہم اپنے اپنے لاہڑی صاحب ہی کو ووٹ دینے کی ٹھان دے چکے ہوں تو عمران خان ہمارے لیے حکیم سعید اور سید مودودی جیسے لوگ کہاں سے لائے؟اور کیوں لائے؟ عمران کا یہ کہناہے کہ اس کے پاس دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ کرکٹ کا کھیل ہاکی کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلے، روایتی سیاست کے چہروں کو نظر انداز کر کے ٹکٹ جاری کرے اور ایک بار پھر ہار جائے اور ملک انہی کے حوالے کر دے جنہوں نے اس ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے۔دوسرا راستہ یہ تھا کہ کرکٹ کا کھیل کرکٹ کے کھلاڑیوں سے کھیلے ، حکمت عملی کے طور پر الیکٹیبلز کو ٹکٹ دے اقتدار میں آئے اور پھر کچھ کر گزرے۔ عمران کے بقول انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔اب اگر کوئی عمران خان سے آخری درجے میں مایوس ہو چکا ہے تو وہ ایک الگ بات ہے لیکن اگر کسی کو عمران خان سے کسی درجے میں کچھ حسن ظن باقی ہے تو وہ عمران خان کو شک کا فائدہ دے سکتا ہے۔اتمام حجت کے لیے ہی سہی ایسے آدمی کو عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ بتا کر کہ ہم تمہارے کہنے پر تمہارے امیدوار کی شکل دیکھنے کی بجائے تمہیں دیکھ کر ووٹ دے رہے ہیں۔ لیکن 26 جولائی سے ہم تمہاری حزب اختلاف ہوں گے۔تم نے کچھ کر کے دکھایا تو درست ورنہ تم پر تنقید کا پہلا پتھر ہماری طرف سے آئے گا۔