ستمبر میں جب اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے حکومت مخالف جلسے شروع ہوئے ان جلسوں کی تقریروں میں جو گھن گرج تھی جو جارحانہ خطاب تھے اب چار ماہ بعد وہ دھمکیاں وہ جارحانہ پن تقریباً ختم ہو گیا ہے۔دسمبر کے آخری ہفتے تک تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی پی ڈی ایم اب ٹوٹ پھو ٹ کا شکار نظر آ رہی ہے، مریم نواز کا جارحانہ الٹی میٹم،فضل الرحمان کی سخت ڈیڈ لائن، لگتا ہے سب کچھ ڈھیر ہو گیا ہے ،اپوزیشن نہ تو اجتماعی استعفے دے سکی نہ ہی نہ دے گی نہ دینے کا ارادہ ہے،جو کہتے تھے کہ استعفے حکومت کے منہ پر ماریں گے وہ اب ضمنی اور سینیٹ کے الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں ،اس حوالے سے تمام اعلانات،دھمکیاں غلط ثابت ہوئیں،اب احتجاج اور لانگ مارچ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، لیکن ابھی تک ان کی کوئی تاریخ نہیں دی جا رہی، کہ لانگ مارچ یا دھرنا کب ہوگا؟ کیسے ہو گا؟ اس کے بعد کیا ہوگا؟ لانگ مارچ ہوتا بھی ہے تو اس کے بعد کیا ہو گا ؟اتنی سردی میں لوگوں کو کیسے اسلام آباد لے جانا ہے، کہاں بٹھانا ہے کچھ بھی طے نہیں ہو رہا۔فضل الرحمان جو حکومت گرانے میں پیش پیش تھے وہ بھی پیپلز پارٹی کے فیصلوں کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں اور مان رہے ہیں کہ ضمنی الیکشن اور سینیٹ کا الیکشن لڑنا چاہئے، سوال یہ ہے کہ ایک طرف تو استعفے دینے کی جلدی تھی لیکن اب الیکشن لڑنے کی بات کر رہے ہیں،ان کا کہنا ہے ابھی فیصلے نہیں ہوئے ہو رہے ہیں پہلے مولانا وہ الفاظ استعمال کرتے تھے جن میں کوئی ابہام نہیں ہوتا تھا لیکن اب ساری باتیں ابہام پر مبنی ہیں، فصل الرحمان کا نیا موقف ہے کہ اب ایسی باتیں سامنے آئی ہیں، جب ہم حکومت عملی بنا رہے تھے تو ہمارے کچھ وکلا کی آرا آئیں خاص طور پر سینیٹ کے الیکشن کے بارے میں انہیں دیکھ کر جو فیصلے ہو رہے ہیں انہیں دیکھ کر ماضی میں ہم نے جو فیصلے کئے ان میں کچھ تبدیلی کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں ،ہم سوچ رہے ہیں استعفے کب دینے چاہئیں ،کیسے دینے چاہئیں ،لانگ مارچ کب ہونا چاہئے ، ان ساری چیزوں کے ساتھ ہمارے پاس جنوری کا پورا مہینہ باقی ہے،بلاول اور مریم کی دھمکیاں تھیں کہ حکومت دسمبر نہیں دیکھے گی اس سے پہلے ہی فارغ کردینگے، پھر نیا سال نہیں دیکھے گی پھر جنوری نہیں دیکھے گی سب دھمکیوں سے ہوا نکل گئی ، اپوزیشن کی دھمکیوں سے ہوا سب سے پہلے اعتزاز احسن نے نکالی، جب انہوں نے ایک چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پوری اپوزیشن استعفے دے بھی دے تب بھی حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور حکومت ان پر ضمنی الیکشن کرادے گی، اسی طرح سینیٹ کے الیکشن پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، الٹا حکومت کو فائدہ ہوگا اور وہ آرام سے سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کر لے گی، اس کے بعد سے حکومت کے بھی حوصلے بڑھے اور تمام وزرا اور مشیروں نے کہنا شروع کردیا کہ اپوزیشن آج ہی استعفے دے ،پی ڈی ایم میں دراڑ پی پی کی سی ای سی اجلاس کے بعد پڑی، پیپلز پارٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ استعفے نہ دئے جائیں بلکہ ضمنی اور سینیٹ کے الیکشن لڑے جائیں، اس کے بعد پی ڈی ایم کے مانسہرہ میں ہونے والے جلسے میں بلاول نے شرکت نہیں کی ، جاتی عمرہ میں پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا ،اس میں بھی بلاول شریک نہیں ہوئے،جواب میں بینظیر کی گڑھی خدا بخش میں برسی پر رکھا جانے والا جلسہ ہوا جس میں فضل ارحمان نے شرکت نہیں کی پھر کچھ دن قبل بنوں میں ہونے والے جلسے میں بلاول اور مریم دونوں شریک نہ ہوئے ،جس سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم میں اب جان نہیں رہی،اب جنوری کی دھمکی ہے ۔اب عمران خان نے وزیر داخلہ شیخ رشید کو کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے الیکشن کمیشن کے باہر جواحتجاج کرنا ہے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے ،دوسری طرف وزیر اعظم نے تحریک انصاف سندھ کے ارکان کو کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کیخلاف پورا زور لگایا جائے ان کی کرشن اور نا اہلی کو اجاگر کیا جائے،تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ اسلئے ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اندرکھاتے کچھ گیم کررہی ہے اور حکومت کو چپکے چپکے کوئی مات دینے کا کھیل کھیل رہی ہے ،پچھلے کچھ عرصے سے حکومتی ارکان صرف ن لیگ پر تنقید کررہے تھے، میڈیا پر جو حکومتی ارکان ہوتے تھے، وہ انکے تیروں کا رخ بھی ن لیگ تھی لیکن اب اچانک پی پی پر تنقید کا فیصلہ ہوا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی حکومتی صفوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے ،تازہ کوشش بلاول نے کی کراچی میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جب انہوں نے ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کی پیشکش کی اور کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایم کیو ایم کس مجبوری کے تحت وفاقی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کا ایک بھی مطالبہ پورا نہیں کیا، یہ بات ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت کیخلاف اکسانے کیلئے کی گئی کہ کسی طرح ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے الگ ہو جائے ،تو تحریک عدم اعتماد کر کے تحریک انصاف کی حکومت ختم کی جا سکتی ہے،اس میں صداقت بھی ہے اگر ایم کیو ایم حکومت کا ساتھ چھوڑ دے تو تحریک انصاف کیلئے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں ،ایم کیو ایم کو حکومت سے گلے شکوے ہیں، اسی بات کا پیپلز پارٹی فائدہ اٹھا نا چاہتی ہے پیپلز پارٹی سڑکوں پر احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنوں کی بجائے ایوان کے اندر سے تبدیلی کی کوشش میں مصروف ہے پی ڈی ایم چاہتی تھی کہ استعفے دیکر نظام کو مفلوج کیا جائے لیکن بلاول کا کہنا ہے کہ سسٹم کے اندر رہ کر ہی حکومت کو گھر بھیجا جائے اسی لئے پیپلز پارٹی حکومتی اتحادیوں کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے ، ایم کیو ایم کو حکومت سے علیحدگی کے پیغامات دئے جا رہے ہیں، ابھی تک یہ لگ رہا ہے کہ حکومت ایک قدم آگے بڑھ رہی ہے اور اپوزیشن دو قدم پیچھے ہٹ رہی ہے،اب حکومت کو چاہئے کہ پی ڈی ایم کو فیس سیونگ فراہم کرے جبکہ پی ڈی ایم کو بھی حکومت مخالف دھرنے اور لانگ مارچ پر نظر ثانی کرنی ہو گی تاکہ درمیانی راہ نکلے اور پاکستان ترقی کی راہ پر چل سکے کیونکہ عام پاکستانی نہیں چا ہتا کہ سیاسی جماعتوں میں کسی بھی قسم کا تصادم ہو کیونکہ پاکستان کی تاریخ ہے کہ کبھی بھی جلسے جلوسوں سے حکومتیں ختم نہیں ہوا کرتیں اس کی سب سے بڑی مثال عمران خان کا 126 روزہ دھرنا ہے، اپوزیشن نے جلسوں میں تقریریں کر کے اپنے ووٹروں کی توقعات اتنی بڑھا دی تھیں کہ ہمارے جلسوں جلوسوں سے حکومت گھبرا جائے گی اور خود چلتی بنے گی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے لیکن ہوا کچھ بھی نہیں ایک تو کورونا دوسرا لوگوں کیں سیاسی شعور آنے لگا ہے کہ جمہوریت کو چلتا رہنا چاہئے، یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن کے جلسوں میں لوگوں کی وہ تعداد نہیں آئی جو اپوزیشن توقع کر رہی تھی خاص طور پر لاہور کا جلسہ جس کا بہت ہوا کھڑا کیا گیا تھا کہ لاہور کا جلسہ فیصلہ ساز ہو گا اس جلسے میں اپوزیشن کی توقع سے بہت ہی کم لوگ آئے، اس کے بعد ہی اپوزیشن پر مایوسی طاری ہوئی۔اب صورتحال یہ ہے کہ ن لیگ اور پی پی حکومت گرانے کی کوشش چھوڑ کر سینیٹ الیکشن اور ضمنی الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہیں ان الیکشن کے بعد ہی کوئی حکومت عملی واضح ہو سکے گی فی الحال تو حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔۔۔