نواز شریف کے نحوست کے دور کے بعد پیش خدمت ہے عمران خان کا ’’عظمت کا دور‘‘ ویسے تو یہ دور 1952ء میں خانِ خاناں حضرت قبلہ عمران خان دام دھرنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا مگر آفیشلی یہ 3 جون 1971ء سے شمار ہوتا ہے جب قبلہ خان صاحب کا کرکٹ کیریئر شروع ہوا۔ کہتے ہیں ٹیسٹ کیریئر کے آغاز کے باوجود جب وہ یہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ انہیں بیٹسمین ہونا چاہئے یا باؤلر اور اسی کشمکش میں دو چار سال بھی گزر گئے تو انہی دنوں ایک شام انہیں قذافی سٹیڈیم کے باہر بیٹھی طوطے سے فال نکالنے والی روحانی شخصیت نے روک لیا اور ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے فرمایا ’’بچہ ! یکسوئی اختیار کر کیونکہ تجھے چھکے چوکوں کے انگاروں سے گزر کر ایک دن اس ملک کا وزیراعظم بننا ہے مگر اس کے لئے تجھے 1992ء والا کرکٹ ورلڈکپ جیتنا ہوگا‘‘ یہ طوطے والی سرکار خان صاحب کی زندگی میں آنے والی پہلی روحانی شخصیت تھی۔ مرید نے اپنے اس پہلے مرشد سے پوچھا: ’’سر کار ! وزارت عظمیٰ کا کرکٹ ورلڈ کپ سے کوئی تعلق ہوتا تو کلائیو لائڈ وزیر اعظم نہ بن چکا ہوتا ؟‘‘ سر کار نے جی ہی جی میں اس بات کا بہت برا منایا مگر تحمل سے کام لیتے ہوئے بولے ’’بچہ ! یہ غیب کی باتیں ہیں جو صرف طوطے والی سرکار جانتی ہے۔ جب تیرے عروج کا دور آئے گا تو وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی نسل کا دور ہوگا، اس دور کی نوجوان نسل کرکٹ ورلڈکپ کی بنیاد پر سیاسی فیصلوں کی قائل ہوگی‘‘ بس پھر کیا تھا، خان صاحب طوطے والی سرکار کو دس آنے دے کر گھر آگئے اور پاکستان کی وزارت عظمیٰ پر نظریں گاڑ کر منصوبہ بندی شروع کردی۔ چھکوں اور چوکوں کا ایک دریا تھا جسے بطور فاسٹ باؤلر وہ عبور کرتے گئے۔ اس دوران 1987ء والا ورلڈ کپ آیا تو باقی ٹیم تو ٹھیک تھی مگر سلیم جعفر اور منصور اختر ہر میچ میں بری کار کردگی دکھاتے گئے۔ دنیا چیخ چیخ کر تھک گئی مگر خان صاحب نے انہیں ٹیم سے نہیں نکالا۔ یہاں تک کہ وہ سیمی فائنل آگیا جس کے آخری اوور میں سلیم جعفر نے 18 رنز دیئے اور پاکستان 18 رنز سے ہی ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا۔ یہ شکست خان صاحب کی چند بڑی دور اندیشیوں میں سے ایک تھی۔ وہ جانتے تھے کہ طوطے والی سرکار نے 1992ء والے ورلڈکپ کی جیت پر وزارت عظمیٰ کی بشارت دی ہے لہٰذا 1987ء والا ورلڈکپ جیتنا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوتا۔بالآخر 1992ء آیا اور خان صاحب نے تن تنہا ورلڈکپ جیت لیا۔ ٹیم میں ان کے علاوہ بھی پندرہ لڑکے تھے مگر وہ محض رسمی کارروائی کے لئے تھے کیونکہ آئی سی سی قوانین کے مطابق میدان میں دو بیٹسمینوں اور گیارہ فیلڈنگ سائڈ پلیئرز کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ورلڈکپ تو خان صاحب نے تن تنہا جیتنا تھا سو تن تنہا ہی جیت کر دکھا بھی دیا۔ اب طوطے والی سرکار کی بشارت پوری ہونے کا وقت ہوا چاہتا تھا مگر خان صاحب نے سوچا کہ پہلے شوکت خانم کینسر ہسپتال بنالیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ وزارت عظمیٰ میں ایسے کام پھر ممکن نہیں رہتے۔ ہسپتال کی تعمیر سے فارغ ہوتے ہی وہ سیاست میں آئے تاکہ طوطے والی سرکار کی بشارت پوری ہوسکے۔ انہیں اپنے وزیر اعظم بننے کا اتنا یقین تھا کہ وہ ویڈیو کلپ تو آپ نے دیکھ ہی رکھا ہوگا جس میں وہ 1997ء کے انتخابات کے موقع پر کامل اعتماد کے ساتھ فرماتے نظر آتے ہیں۔ ’’ہم کلین سویپ کر رہے ہیں‘‘ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے لب اس زمانے میں بھی ہلا کرتے تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صرف حالیہ احتساب عدالت میں ہی جادو نہیں کرتے بلکہ 1997ء والے انتخابات میں بھی ان کا جادو زوروں پر تھا۔ یہ صرف اسی جادو کا نتیجہ تھا کہ خان صاحب کلین سویپ نہیں کر سکے۔ سچ پوچھئے تو اس زمانے میںصرف نواز شریف ہی کیا بینظیر بھٹو کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا کرتا تھا مگر خان صاحب نے ہمت نہیں ہاری۔ انہیں یقین تھا کہ طوطے والی سرکار کی بشارت ضرور پوری ہوگی اور کرکٹ ورلڈکپ کے بعد وہ وزارت عظمیٰ بھی جیت کر پاکستان کو ان ممالک کی صف میں لاکھڑا کریں گے جو کرکٹ، ہاکی اور سکواش ورلڈکپ جیتنے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کپ بھی جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات تک ہر انتخاب نے بس ایک ہی بات ثابت کی کہ عظمت کا دور ابھی تمام نہیں ہوا۔ اور یہ تب تک تمام ہو بھی نہیں سکتا جب تک عظیم کپتان وزارت عظمیٰ نہ جیت لیں۔ ان کے مخالفین عظمت کے اس درخشاں دور کے آخری چار سالوں کو ان کی خواری کا دورِ عروج بتاتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اسی دور میں خانِ خاناں نے یہ عظیم سیاسی راز دریافت کیا ہے کہ میٹرو بس جیسے منصوبے بروقت شروع کرنے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں بلکہ قومیں ترقی تب کرتی ہیں جب اس طرح کے منصوبے ساڑھے چار سال کی تاخیر سے شروع کئے جائیں ۔ یہ ایک زبردست سبق ہے جو ان گزرے چار سالوں کا حاصل ہے۔ اس بار ان کی تیاری بھرپور ہے بس انہیں وہ طوطے والی سرکار کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے مگر وہ ڈھونڈے نہیں ملتی ۔ ہر ماہ پورے چاند کی روشن رات میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر ’’یاقمر‘‘ کا ورد کیا جاتا ہے کہ سورج بادشاہ ہے اور چاند وزیراعظم۔ روز سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ وٹس ایپ کے ذریعے ’’شہاب ثاقب‘‘ کے عکس اس تلقین کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں کہ شیطان شیئر کرنے سے روکے گا مگر للہ آپ رکئے گا نہیں۔ نتیجہ یہ کہ روحانیت نے ایسا سماں باندھ دیا ہے کہ اب تو نواز شریف کو بھی خلائی مخلوق نظر آنے لگی ہے۔ اپنے بدترین حریف کو زبان حال سے ’’خلائی مخلوق اتر سکتی ہے قطار اندر قطار اب بھی‘‘ کا ورد کرتا دیکھ کر خانِ خاناں بے اختیار پکار اٹھتے ہیں ’’یہ سب تمہارا کرم ہے پاشا کہ…‘‘