’’ کُہنیاں ملانے کا موسم ‘‘ میرے کالم کا یہ عنوان شاید عجیب لگے مگر حقیقت یہ ہے کہ کرونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز اور سابق سپیکر رانا اقبال خان کی مصافحہ کرنے کی بجائے کُہنیاں ملانے کی تصویر منظر پر آئی ہے ۔ جس پر چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ اخبارات میں وزیراعظم عمران خان اور مولانا طارق جمیل کی تصویر شائع ہوئی ہے جو کہ کرونا سے بچاؤ کیلئے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر مصافحہ کرنے کی بجائے دونوں صاحبانوں نے قدرے فاصلے پر کھڑے ہو کر اپنے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ عوام حکمرانوں کی نقل کرتے ہیں ،آج صبح میں گھر سے آ رہا تھا ، گلی میں بچے تماشا بنائے ہوئے تھے کہ ایک بچہ ہاتھ ملانے کی کوشش کرتا ، دوسرا ہاتھ ملانے سے گریز کرتا اور پھر وہ ہاتھ ملانے کی کوشش میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ۔ تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس قدر مسائل کو الجھایا جا رہا ہے اور خوف کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے ، میرے خیال میں درست نہیں کہ بحیثیت مسلمان ہم تمام احتیاطی تدابیر کریں اور اس کے بعد معاملات سپرد خدا کریں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ کرونا وائرس سے ڈرنا نہیں اور لوگوں کو مایوسی کا نہیں بلکہ امید کا پیغام دینا ہے ‘ جبکہ دوسری طرف حکومت کی طرف سے ذرائع ابلاغ پر کیا جانے والا واویلا بذات خود لوگوں کو مایوسیوں کی دلدل میں دکھیلنے کا باعث ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کرونا کی آزمائش نے پوری دنیا کو پریشان اور فکر مند کر دیا ہے مگر اس حوالے سے جس پیمانے پر پروپیگنڈہ ہو رہا ہے اور پوری دنیا کو بلاک کر کے رکھ دیا گیا ہے یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے ۔احتیاطی تدابیر سے انکار نہیں مگر سوال یہ ہے کہ دیگر موذی امراض میں لوگ روزنامہ ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں ، پھر کبھی دنیا کے بڑے ملکوں نے اس بارے سوچا؟ سب سے بڑی بیماری غربت ہے ۔ تمام دولت دنیا کے بڑے ممالک خصوصاً چند سرمایہ داروں کے پاس اکٹھی ہو کر رہ گئی ہے ، کیا کبھی غربت کے خاتمے کے بارے میں سوچا گیا دنیا منتظر ہے ، غربت کے ساتھ ساتھ دیگر موذی امراض کے مستقل علاج کیلئے ۔ آج اگر کرونانے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو اس کا سبق یہ ہے کہ سرمایہ دار اور ترقی یافتہ ممالک انسانیت پر رحم کریں اور نہ صرف یہ کہ کرونا کے علاج بلکہ غربت سمیت تمام امراض کے علاج کے بارے میں سوچیں ۔ کرونا وائرس کے خوف کی کیفیت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور ترکی میں باجماعت نماز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، عراق میں حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز نہ پڑھی جائے ، ایران میں مزارات میں داخلے پر پابندی ہے ۔ مشہد میں امام رضا ، تہران میں شاہ عبدالعظیم اور فاطمہ معصومہ کا مزار بند کیا گیا ہے ، جس کے خلاف لوگوں نے مظاہرہ بھی کیا ، مصر میں تمام مساجد کے اندر جمعہ کا خطبہ اور نماز پندرہ منٹ تک محدود کر دی گئی ہے اور لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھروں میں نماز ادا کریں۔ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل اہم ادارہ ہے ، اس کے سربراہ قبلہ ایاز دیدہ ور آدمی ہیں، انہوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت جمعہ کے اجتماع پر پابندی لگائے تو عمل کرنا ضروری ہے ۔ان کی طرف سے ہدایت جاری ہوئی ہے کہ علماء کرام طویل بیان کی بجائے مختصر خطبہ دیں ، بچے اور بزرگ مساجد میں نہ جائیں ۔ عمرہ پر پابندی اور زائرین کی واپسی کی خبریں روزانہ آ رہی ہیں ۔ ایک واقعہ یہ ہوا ہے کہ ایران سے آنے والی آٹھ بسوں پر مشتمل زائرین کے قافلے کو سخت سکیورٹی انتظامات میں خیبرپختونخواہ بھجوایا گیا اور کلر کہار میں زائرین کے جانے کے بعد مسجد کی صفیں اور ہوٹل کی کرسیاں جلا دی گئیں ۔ ایک طرف خوف و ہرس اور اتنی سخت پابندیاں کہ پورے ملک میں دفعہ 144 لگی ہوئی ہے ، چار آدمیوں کے اجتماع پر پابندی ہے دوسری طرف جہاں میں رہتا ہوں ، یہ دولت گیٹ ملتان کا علاقہ ہے اور اس علاقے میں ایک کبوتر منڈی ہے جسے ’’ گودڑی کبوتروں والی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسے پرندوں اور جانوروں کی عالمی مندی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہاں ملکی و غیر ملکی پرندوں کے ساتھ ساتھ کتے ، بلیاں ، بندر اور پالتو بھیڑ بکریاں وغیرہ کا کاروبار ہوتا ہے ،جمعہ اور اتوار منڈی لگتی ہے ، ابھی دو دن قبل اتوار کو جو منڈی لگی ، منڈی کے اجتماع میں ہزاروں لوگ شریک تھے ، سڑک اور راستے بند تھے ، تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ، اور کتنے بلیاں اور ہمہ قسم پرندے فروخت ہو رہے تھے ، پولیس والے بھی’’ ڈیوٹی ‘‘دے رہے تھے ، سوال یہ ہے کہ بچی کی رخصتی اور قل خوانی سمیت جب ہر طرح کے اجتماع پر پابندی ہے اور پولیس نے مختلف شہروں میں لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے تو کبوتر منڈی جیسے اجتماع کی اجازت کس بنا پر ہے ؟ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کرونا وائرس کے باعث کوئٹہ سے آنے والی اکبر بگٹی ایکسپریس اور جعفر ایکسپریس کو بند کر دیا ہے ۔جبکہ دیگر ٹرینوں کی بندش کے بارے میں بھی سوچا جا رہا ہے ۔ حکومت کو اس طرح کے اقدامات سے گریز کرنا چاہئے کہ لوگ طرح طرح کے مشکلات کا شکار ہیں ، ملک کے مالی حالات پہلے بھی درست نہیں ، بے روزگاری نے پہلے ہی غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کر دیئے ہیں تو موجودہ اقدامات سے غریب طبقہ مزید مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ معلوم کیا جائے کہ روزانہ کینسر ، یرقان و دیگر موذی امراض سے کتنے لوگ مر رہے ہیں ، ان امراض سے بچاؤ کیلئے نہ تو حفاظتی انتظامات کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی آگاہی مہم ہو رہی ہے ۔ ایک یکطرفہ طور پر خوف کی مہم شروع کی گئی ہے ، جسے ایک حد تک رکھنے کی ضرورت ہے ۔ میری تمام گزارشات کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کرونا وائرس پر کوئی توجہ نہ دی جائے بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ملک سے خوف کی کیفیت کو ختم کیا جائے ‘ کرونا وائرس کے ٹیسٹ مفت کئے جائیں اور ماسک مفت مہیا کئے جائیں ، پروپیگنڈہ اور خوف کی کیفیت نے ٹیسٹ اور ماسک بہت زیادہ مہنگے کر دیئے گئے ہیں جو کہ کرونا وائرس کے نام پر غریبوں کے لئے ایک اور عذاب ہے ۔ دوسرا یہ کہ ایران و دیگر علاقوں سے آنے والے مریض بہاولپور ، ڈی جی خان اور ملتان ڈویژن میں بھیجے جا رہے ہیں ، وسیب میں پہلے بھی صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے ، اگر ان مریضوں کو بھیجنا ہے تو ان بڑے شہروں میں بھیجا جائے جہاں صحت کی سہولتیں زیادہ ہیں ۔